پھر خیاباں بعد شبنم دیکھیے فوراً کھلا
پھر خیاباں بعد شبنم دیکھیے فوراً کھلا
ناصحا تو دوستی کی ورد پر دشمن کھلا
حشر تک فرعون کو مٹی نکارے یار سن
کھل گیا کھلتا نہیں تھا آخرش مردن کھلا
شیفتہ کا خند نیما آستان عشق پر
جب کھلاۓ دل بدست دل کھلا تن من کھلا
اعتمادوں کا تصور جھوٹے شیوے ہر جگہ
ٹک چھپی دیوانہ واری ٹک دوانہ پن کھلا
رفتگان بے کسی افتاد پا مسمار پا
مثل زنداں آج پھر اس غار سے رہزن کھلا
لی چلم از کھینچ کر خدشے سے اندوہ و الم
منہ جلا پتی جلی شب تا سحر ایندھن کھلا
نالۂ بیرون سے جا کر ہماری چھت کھلی
حیف ہے رخشندگی تاخیر تک روزن کھلا
خود ابانؔ ان سے کہو کہہ دو شعار عام سے
شکر مانو تم زمانے جس پہ اپنا فن کھلا