پھر کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے

پھر کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے
ہم ترا شہر چھوڑ جائیں گے


دور افتادہ بستیوں میں کہیں
تیری یادوں سے لو لگائیں گے


شمع ماہ و نجوم گل کر کے
آنسوؤں کے دیئے جلائیں گے


آخری بار اک غزل سن لو
آخری بار ہم سنائیں گے


صورت موجۂ ہوا جالبؔ
ساری دنیا کی خاک اڑائیں گے