پھر دل سے آ رہی ہے صدا اس گلی میں چل
پھر دل سے آ رہی ہے صدا اس گلی میں چل
شاید ملے غزل کا پتا اس گلی میں چل
کب سے نہیں ہوا ہے کوئی شعر کام کا
یہ شعر کی نہیں ہے فضا اس گلی میں چل
وہ بام و در وہ لوگ وہ رسوائیوں کے زخم
ہیں سب کے سب عزیز جدا اس گلی میں چل
اس پھول کے بغیر بہت جی اداس ہے
مجھ کو بھی ساتھ لے کے صبا اس گلی میں چل
دنیا تو چاہتی ہے یوں ہی فاصلے رہیں
دنیا کے مشوروں پہ نہ جا اس گلی میں چل
بے نور و بے اثر ہے یہاں کی صدائے ساز
تھا اس سکوت میں بھی مزا اس گلی میں چل
جالبؔ پکارتی ہیں وہ شعلہ نوائیاں
یہ سرد رت یہ سرد ہوا اس گلی میں چل