پھیر روز فراق یار آیا
پھیر روز فراق یار آیا
نامہ بر آہ زار زار آیا
تیرے جانے سے فتنہ ہو تیار
بہ سر چشم اشک بار آیا
جھاڑا مرقد پہ میرے جب دامن
آسماں کا گویا غبار آیا
مے سے توبہ تو کر نہیں سکتا
کیا کروں موسم بہار آیا
مارا جاوے گا بھاگ اے ناصح
دیکھ یہ نازنیں سوار آیا
کسی مخلوق کو خدا نہ دکھائے
جو کہ مجھ پر در انتظار آیا
اس کی بیداد کا خدا دے اجر
ہاتھ میں لے کے ذو الفقار آیا
کہتا ہے سر جھکا جو عاشق ہے
میں تو اب مائل شکار آیا
آفریدیؔ سمجھ حیات ابد
قتل کو تیرے گر وہ یار آیا
پیشوائی کو اس کی جا جلدی
کہہ کہ حاضر گناہ گار آیا
تجھے قاسمؔ علی خدا کی قسم
کیسے ظالم پہ اعتبار آیا