پھینکتے سنگ صدا دریائے ویرانی میں ہم
پھینکتے سنگ صدا دریائے ویرانی میں ہم
پھر ابھرتے دائرہ در دائرہ پانی میں ہم
اک ذرا یوں ہی بسر کر لیں گراں جانی میں ہم
پھر تمہیں شام و سحر رکھیں گے حیرانی میں ہم
اک ہوا آخر اڑا ہی لے گئی گرد وجود
سوچیے کیا خاک تھے اس کی نگہبانی میں ہم
وہ تو کہئے دل کی کیفیت ہی آئینہ نہ تھی
ورنہ کیا کیا دیکھتے اس گھر کی ویرانی میں ہم
محو حیرت تھے کہ بے موسم ندی پایاب تھی
بس کھڑے دیکھا کیے اترے نہیں پانی میں ہم
اس سے ملنا اور بچھڑنا دیر تک پھر سوچنا
کتنی دشواری کے ساتھ آئے تھے آسانی میں ہم