پس تقریب ملاقات

پس تقریب ملاقات یہاں شام ڈھلے
دیر تک پھیلی رہے گی تری شرکت کی مہک


مترنم سے رہیں گے یہ ہوا کے گوشے
جن میں غلطیدہ ہے اب لحن تکلم تیرا
رات بھر پھیلی رہے گی یہ تأثر کی شفق
جذب ہے جس میں دل آویز تبسم تیرا


یاد رہ جائے گی اس صحن کو یہ شام فسوں
جل گئی تھیں کئی ان دیکھی سہانی شمعیں
لو سا دے اٹھا تھا ماحول ترے آنے کا
چھا گیا تھا در و دیوار پہ وہ پرتو رنگ
جیسے ماخوذ ہوں لمحے کسی افسانے سے
چھوڑ جائے گا وہی نرم کسک پھر دل میں
جس سے شاداب ہے مدت سے مرا ذوق طلب
آج تقریب میں یہ طرز ملاقات ترا


بے نیازانہ تخاطب میں پریشاں سا ترے
گوشۂ لب پہ کوئی حرف شناسائی کا
تمکنت والی اداؤں میں انوکھا سا نیاز
مجتنب آنکھوں میں اک عکس پذیرائی کا
عام موضوع سخن میں بھی عیاں لہجۂ خاص
ذہن کی بات میں بھی دل کی دھمک کا احساس
اک تفاہم سا کسی غمزۂ غلطیدہ میں
ایک مانوس سا خم کاکل پیچیدہ میں


تجھ سے یہ ربط کہ موہوم بھی مفہوم بھی ہے
تو کہ ہے مجھ سے تری زیست کا ہر رنگ جدا
شرح حالات الگ عمر کا آہنگ سوا
پہلے ہی راہ میں حائل ہے خلیج اقدار
تو نے تابندہ بھی رکھا ہے ترا خط حصار
پھر بھی اک قرب کی خوشبو ہے فضا میں بیدار
یہ رہ و رسم جو اظہار محبت بھی نہیں
ہے ترے دم سے یہ راحت کہ جو راحت بھی نہیں
غم بے نام ترے نام سے موسوم بھی ہے


حسن سے رابطۂ عشق کے مضموں ہیں بہت
اس لطافت کدۂ کیف میں افسوں ہیں بہت


نہ ترے جسم کا صندل نہ ترے لب کے گلاب
نہ تری زلف کی شبنم ہے اس احساس کا نام
یوں تو اس شام کا پیکر بھی ہے تیرا یہ جمال
اس شناسائی کا عنواں ہے فقط نکہت شام
چشم ہم دم کی عطا کردہ یہ آسائش دید
مہرباں حسن کا بخشا ہوا یہ اذن کلام


آج پھر جاگتی رہ جائے گی ہر بام تلے
وہی شاداب سی حسرت وہی آسودہ کسک
دیر تک پھیلی رہے گی تری شرکت کی مہک
پس تقریب ملاقات یہاں شام ڈھلے