پس چہ باید کرد
خواب خس خانہ و برفاب کے پیچھے پیچھے
گرمئ شہر مقدر کے ستائے ہوئے لوگ
کیسی یخ بستہ زمینوں کی طرف آ نکلے
موج خوں برف ہوئی جاتی ہے سانسیں بھی ہیں برف
وحشتیں جن کا مقدر تھیں وہ آنکھیں بھی ہیں برف
یاد یاران دل آویز کا منظر بھی ہے برف
ایک اک نام ہر آواز ہر اک چہرہ برف
منجمد خواب کی ٹکسال کا ہر سکہ برف
اور اب سوچتے ہیں شام و سحر سوچتے ہیں
خواب خس خانہ و برفاب سے وہ آگ بھلی
جن کے شعلوں میں بھی قرطاس و قلم زندہ ہیں
جس میں ہر عہد کے ہر نسل کے غم زندہ ہیں
خاک ہو کر بھی یہ لگتا تھا کہ ہم زندہ ہیں