پروین شاکر کا یوم پیدائش
اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
نام : سیدہ پروین شاکر
تخلص : پروین
ولادت : 24/ نومبر 1952ء کراچی پاکستان
وفات : 26/دسمبر 1994ء اسلام آباد پاکستان
آج (24؍نومبر 1952) پاکستان کی مقبول ترین شاعرات میں نمایاں، نسائی احساسات و جذبات کی ترجمان اور شہرہِ آفاق شاعرہ پروینؔ شاکر صاحبہ کا 69 واں یومِ ولادت ہے
پروین شاکر صاحبہ 24 نومبر 1952کو کراچی میں پیدا ہوئیں ۔ان کے آباء و اجداد چندن پٹی، لہیریاسرائے، ضلع دربھنگہ (بہار) ہندوستان کے رہنے والے تھے ۔تقسیم کے بعد ان کے والدین پاکستان ہجرت کر گئے ۔والد سیّد ثاقب حسین بھی شاعر تھے اور شاکرؔ تخلص کرتے تھے ۔ اسی نسبت سے وہ اپنے نام کے ساتھ شاکر لکھتی تھیں۔ ابتدا میں مِینا تخلص کرتی تھیں ۔پندرہ برس کی عمر میں شاعری کی ابتدا ہوئی ۔پہلی نظم روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی۔ 1978ء میں جامعہ کراچی سے انگریزی ادب اور لسانیات میں ایم اے کیا 1981میں پروین نے جنگ میں ذرائع ابلاغ کا کردار کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ سے انہوں نے بینک ایڈ منسٹریشن میں ایم اے کیا ۔عبداللہ گرلز کالج میں انگریزی کی لیکچرر مقررہوئیں ۔ سول سروسزکے امتحان میں کامیاب ہوئیں ۔کسٹم اینڈ ایکسائز کے محکمے میں کسٹم کلکٹر ہوئیں۔
ان کی شادی ان کے خالہ زاد بھائی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی، لیکن 1989 میں علیحدگی ہوگئی۔
بیٹے کا نام سیّد مرادعلی رکھا، جسے گیتو بھی کہا جاتا تھا۔ پروین شاکر ، احمد ندیم قاسمی صاحب سے بے حد متاثر تھیں اور انہیں عمو جان کہا کرتی تھیں۔ پہلے شعری مجموعہ خوشبو کا انتساب انہی کے نام ہے۔ محبت کی خوشبو کو شعروں میں سمو کر بیان کرنے والی منفرد لہجے کی شاعرہ پروینؔ شاکر کو ہم سے بچھڑے 26 برس بیت گئے، لیکن ان کے اشعار آج بھی ہزاروں دلوں کو ان کے زندہ ہونے کا احساس دلا رہے ہیں، خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر 9 سال تک استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں سرکاری ملازمت اختیار کرلی ۔ 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ میں بحیثیتِ سیکرٹری خدمات سر انجام دیں، جب کہ امریکہ کی ایک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے مکمل کیا گیا مقالہ، زندگی کے ساتھ نہ دینے کے سبب پیش کرنے سے قاصر رہیں ۔ پروینؔ شاکر کو اردو کے منفرد لب و لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔
اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت قلیل سی متاعِ حیات میں وہ کارنامے سرانجام دیے جن کی بدولت آپ کو پرائیڈ آف پرفارمنس اور آدم جی ایوارڈ ز کے ساتھ ساتھ خوشبو کی شاعرہ کے خطاب سے نوازا گیا ۔
1976 ء میں محض 24 برس کی عمر میں پروین شاکر کی پہلی کتاب "خوشبو" شائع ہونے پر ان کو بے حد پذیرائی ملی۔ یوں پروینؔ شاکر کے فکرو فن کی خوشبو چارسو پھیل گئی خوشبو کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ پہلی اشاعت کے چھے ماہ بعد ہی اس کا دوسرا ایڈیشن چھاپنا پڑا ۔اس کتاب نے پروینؔ شاکر کے ادبی کرئیر میں نئی روح پھونک دی۔ پروینؔ شاکر نے کچی عمراور نسلِ نو کے جذبات کی ترجمانی سے الفاظ اور جذبات کو ایک انوکھے تعلق میں باندھ کر سادہ الفاظ میں نسائی انا، خواہش اور انکار کو شعر کا روپ دیا ۔ گہری شاعری کے اسلوبِ بیاں نے پروینؔ شاکر کو جلد ہی شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا،
اب اگر پروینؔ شاکر کی ذاتی زندگی پر نظر دوڑائی جائے، توان کی ذاتی زندگی کا دکھ ازدواجی زندگی کے اختتام پر منتج ہوا۔ انہوں نے کراچی کے ڈاکٹر نصیر علی سے شادی کی جس سے ایک بیٹا مراد علی پیدا ہوا بعدا زاں ڈاکٹر نصیر سے طلاق لے کر ازدواجی زندگی کو خیر آباد کہہ دیا، ان کی شاعری کے موضوعات میں جہاں محبت، نسائیت اور اقدارکا گراں قدراحساس موجود ہے، وہیں دکھ اور حزن کی کیفیت بھی ابھر کر سامنے آتی ہے۔
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا
پروینؔ شاکر کا شمار ان چند خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے خود کو منوایا ہے ۔انہوں نے عورت کے مشرقی احساس، کٹھن، دکھ اور ملال کی جومنظر کشی کی، ان سے پہلے کسی شاعرہ نے انہیں اتنی نزاکت سے بیان نہیں کیا۔ ماں کے جذبات، ورکنگ ومن کے مسائل، ان سبھی کو انہوں نے بہت خوبصورتی سے قلم بند کیا ہے۔ جب کہ ان کی شاعری میں روایت سے انکار اور بغاوت بھی نظر آتی ہے، پروینؔ شاکر کی پوری شاعری ان کے اپنے جذبات اور درد کے احساسات کا اظہار ہے ان کی شاعری میں قوسِ قزح کے ساتوں رنگ نظر آتے ہیں اسی وجہ سے انہیں دورِ جدید کی شاعرات میں نمایاں مقام حاصل ہے ۔ پروینؔ شاکر کے شعری مجموعے 1976ء میں خوشبو، 1980ء میں صد برگ،1990ء میں خود کلامی، 1990ء ہی میں انکار اور 1994ء میں ماہِ تمام شائع ہوئے، انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ کالم نویسی بھی کی۔
پروینؔ شاکر کی نظمیں بھی اسی معیار کی ہیں جو گہرے تخلیقی تاثر میں ڈوبی ہوئی ہیں اور ان عظمت کے اسباب کے لیے کافی ہی۔ ں انہوں نے غزلیں تو ایسی عمدہ کہیں کہ زبان زدِ خاص و عام ہوگئیں۔
پر وین شاکرؔ، 26 دسمبر 1994ء کو بروز پیر، اسلام آباد میں اپنے آفس جاتے ہوئے ٹریفک حادثے میں 42 سال کی عمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جاملیں ۔آپ نے اپنی شاعری میں کہا تھا کہ
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مِرے ہونے کی گواہی دیں گے
پروین شاکر کے چند نمایاں اشعار
کی محَبّت تو سیاست کا چلن چھوڑ دیا
ہم اگر عشق نہ کرتے تو حکومت کرتے
راستوں کا علم تھا ہم کو، نہ سمتوں کی خبر
شِہرِ نا معلوم کی چاہت مگر کرتے رہے
عشق دریا ہے، جو تیرے وہ تہی دست رہے
وہ جو ڈوبے تھے، کسی اور کنارے نکلے
یہ غنیمت ہے کہ اُن آنکھوں نے پہچانا ہمیں
کوئی تو سمجھا دیارِ غیر میں اپنا ہمیں
غیروں کی دشمنی نے نہ مارا،مگر ہمیں
اپنوں کے التفات کا زہر اب لے گیا
برس سکے تو برس جائے اس گھڑی ، ورنہ
بکھیر ڈالے گی بادل کے سارے خواب ، ہوا
وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے ،پھول کدھر جائے گا
اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی
اک نام کیا لکھا ترا ساحل کی ریت پر
پھر عمر بھر ہوا سے میری دشمنی رہی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں
دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون
وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اس شام بھی
انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر کرتے رہے
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
مَیں تو اس دن سے ہراساں ہُوں کہ جب حُکم مِلے
خُشک پھولوں کو کتابوں میں نہ رکّھے کوئی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے
اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا
دینے والے کی مشیت پہ ہے سب کچھ موقوف
مانگنے والے کی حاجت نہیں دیکھی جاتی
کچھ فیصلہ تو ہو کہ کدھر جانا چاہئے
پانی کو اب تو سر سے گزر جانا چاہئے
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
جستجو کھوئے ہوؤں کی عمر بھر کرتے رہے
چاند کے ہم راہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے
رخصت کرنے کے آداب نبھانے ہی تھے
بند آنکھوں سے اس کو جاتا دیکھ لیا ہے
ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا
خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح
تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اور تری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے
مقتلِ وقت میں خاموش گواہی کی طرح
دل بھی کام آیا ہے گمنام سپاہی کی طرح
جب ہوا تک یہ کہے ، نیند کو رخصت جانو
ایسے موسم میں جو خواب آئیں غنیمت جانو