پروین شاکر

بہار حسن جواں مرگ صورت گل تر
مثال خار مگر عمر درد عشق دراز
وہ ودیاپتی کی شاعری کی
معصوم و حسین و شوخ رادھا
وہ اپنے خیال کا کنہیا
ان شہروں میں ڈھونڈنے گئی تھی
دستور تھا جن کا سنگ باری


وہ فیضؔ و فراقؔ زیادہ
تقدیس بدن کی نغمہ خواں تھی
تہذیب بدن کی رازداں تھی
گلنار بدن کی تہنیت میں
گلنار لبوں سے گل فشاں تھی
لب آشنا لب غزل کے مصرعے
جسم آشنا جسم نظم پیکر
لفظوں کی ہتھیلیاں حنائی
تشبیہوں کی انگلیاں گلابی
سرسبز خیال کا گلستاں
مبہم سے کچھ آنسوؤں کے چشمے
آہوں کی وہ ہلکی سی ہوائیں
صد برگ ہوا میں منتشر تھے
تتلی تھی کہ رقص کر رہی تھی


اور درد کے بادلوں سے چھن کر
نغموں کی پھوارے پڑ رہی تھی
پر شور منافقت کے بازار
افواہیں فروخت کر رہے تھے
وہ اپنی شکستہ شخصیت کو
اشعار کی چادروں کے اندر
اس طرح سمیٹنے لگی تھی
احساس میں آ رہی تھی وسعت
نظروں کا افق بدل رہا تھا
اور درد جہان آدمیت
ٹوٹے ہوئے دل میں ڈھل رہا تھا
اس عالم کیف و کم میں اک دن
اک حادثے کا شکار ہو کر
جب خوں کا کفن پہن لیا تو
اڑتیں صلیبیں نوحہ خواں تھیں
خاموش تھا کرب خود کلامی
اب کچھ نہیں رہ گیا ہے باقی
باقی ہے سخن کی دل نوازی
2
جنت میں ہے جشن‌ نو کا ساماں
محفل میں مجازؔ و بائرنؔ ہیں
موجود ہیں کیٹسؔ اور شیلیؔ
یہ مرگ جواں کے سارے عاشق
خوش ہیں کہ زمین پاک سے اک
نو مرگ بہار آ گئی ہے
لپٹی ہوئی خاک کی ہے خوشبو
اور سایہ فگن سحاب رحمت