پروانے کہاں مرتے بچھڑتے پہنچے

پروانے کہاں مرتے بچھڑتے پہنچے
دیوانہ صفت ہوا سے لڑتے پہنچے
پیاس آگ میں کود کر بجھانے والے
دھن کے پکے تھے گرتے پڑتے پہنچے