پرچھائیوں کی بات نہ کر رنگ حال دیکھ
پرچھائیوں کی بات نہ کر رنگ حال دیکھ
آنکھوں سے اب ہوا و ہوس کا مآل دیکھ
دو شیر جس کے قہر کی جنگل میں دھوم تھی
میری نشست گاہ میں اب اس کی کھال دیکھ
خوشبو کی طرح گونج اٹھا حرف آگہی
اے دل ذرا حصار نفس کا زوال دیکھ
تجھ سے قریب آئے تو اپنی خبر نہ تھی
دوری کا یہ عذاب برنگ وصال دیکھ
بجھتی ہوئی صدا کی طرح خود میں ڈوب جا
پیش نگاہ جب بھی تمنا کا جال دیکھ
پلکوں میں تیز دھوپ کا منظر سمیٹ لے
پھر کاسۂ بدن میں لہو کا ابال دیکھ