پپیتا: کھانے میں کسیلا لیکن بہت سے بیماریوں کا شافع ہے
پپیتا بہت حد تک شباہت میں آم سے ملتا جلتا ہے۔اسی طرح پیلا رنگ،جسامت میں ذرا فربہ فربہ مگر ذائقہ میں مختلف۔ذائقے میں پھیکا بلکہ قدرے کسیلا ہوتا ہے۔
اس پھل کو سب سے پہلے سولہویں صدی میں پانامہ اور میکسیکو میں دریافت کیا گیا پھر دنیا کے دیگر حصوں میں بھی اس کی کاشت ہونے لگی۔اسے پھلنے پھولنے کے لیے زرخیز زمین اور گرم مرطوب آب وہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کے درخت کی اونچائی تقریباَ 10 سے 12 فٹ تک ہوتی ہےجس پر شاخیں نہیں ہوتیں۔
کچا پپیتا اپنی ساخت اور رنگ میں اوپر سے سبز اور اندرسے سفید ہوتا ہے۔پکنے پر دونوں اندر اور باہر سے رنگت زردہوجاتی ہے۔آم اور پپیتے کی غذائی تاثیر تقریباَ ملتی جلتی ہے۔اس میں روغنی اجزا ءکے علاوہ نمک،نشاستہ،فاسفورس،چونا،فو لاداور وٹامن اے وغیرہ موجود ہوتے ہیں۔پپیتا معدے اور جگر کے لیے بے حد مفید ہے۔جگر کے فعل کو تقویت دیتا ہےاور معدےکو طاقت دے کر اسے مزید فعال بناتا ہے۔یہ بد ہضمی اور تبخیر معدہ جیسے مرض کا بہترین علاج ہے۔اس میں موجودPepsin ہاضمے کے عمل کو سہولت فراہم کرتا ہےاور اس طرح سے یہ بدہضمی کا بہت اچھا تریاق ہے۔
قبض دور کرکے اور انتڑیوں کی صفائی کر کے Bowl movement کو فعال بناتا ہےساتھ ساتھ پیشاب آور بھی ہے۔بدن سے فاسد مادےاور پتھر خارج کرنے میں مددگار ہے۔اس کے علاوہ بواسیر،دائمی قبض، جگر کی خرابی اورتِلی کےامراض میں مفید ہے۔پپیتا پیٹ کے کیڑوں کا قدرتی علاج ہے۔
تلی اگر بڑھ جائےاور اس کی وجہ سے عمل انہضام میں پچیدگی آجائے گی تو پپیتا کچے پھل کی صورت میں دیں۔ اس کے ٹکڑے سرکے میں ڈال دیں۔ہرآٹھ یا دس دن بعد ایک دوٹکڑے روزانہ کھائیے۔مثانے کی درستگی کےلیے بھی یہ پھل مفید ہے۔اس مقصد کےلیے چھ ہفتے تک صبح وشام آدھ پاؤ پپیتا ہاضمے کے شاندار دوا ہے۔اسے بطورِسبزی بھی پکایا جاتا ہے۔قبض دورکرنے کے ساتھ ساتھ یہ دودھ پلانے والی ماؤں کےلیے بھی مفیدہے۔
اس کا سرکہ اور رس وغیرہ کئی ادویات کے بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔اس کا اچار بھی بنتا ہے۔پھل کے ٹکڑے سرکے میں ڈال دیں اور آٹھ دس روز بعد بطورِاچار استعمال کریں۔ پپیتے کا سفوف کام آتا ہے۔سری پائے ،تکے،کباب اور سخت گوشت کو گلانے کےلیے ایک چمچ سفوف ڈال دیں۔
پپیتے سے تیار کردہ دوا Carica Papaya ہے۔یہ مندرجہ ذیل علامات کے لیے استعمال کرنے سے ممدو معاون ثابت ہوتی ہے۔
۱۔ ہاضمہ کی ایسی کمزوری جس میں دودھ تک ہضم نہیں ہوتا اس دوا کے استعمال سے درست ہو جاتا ہے۔
۲۔ خاص طور پر جگر یا تلی کے بڑھ جانے کی صورت میں اگر ہاضمہ انتہائی کمزور ہو جائےتو یہ دوا اپنی تاثیر سے بہت عمدگی کے ساتھ اسے ٹھیک کردیتی ہے۔
۳۔ ملیریا بخار کے ساتھ تِلی کے بڑھ جانے میں جب تھوڑی تھوڑی مقدار میں بارباررفعِ حاجت ہوتی ہو اور جگر کے مقام پر درد ہو، آنکھیں زرد ہوجائیں اور زبان پر میلی تہہ جم جائے تو اس دوا کا استعمال یقیناَ شفاء کا ضامن ہے۔