پنڈورا کا ڈھنڈورا
پنڈورا لیکس کے معاملے پہ ایک دوسرے کو لتاڑنے سے پہلے یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ یہ آف شور کا ملعون نظام کس نے کھڑا کیا؟ ذرا تصور کریں کہ اگر برطانیہ، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں آف شور کا نظام موجود نا ہوتا تو تیسری دنیا کے چور اپنا مال کہاں لے کر جا سکتے تھے؟ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے منافق ادارے، بی بی سی، سی این این جیسے میڈیا گرد آپ کو یہ تو بتاتے ہیں کہ پاکستان کرپشن انڈیکس میں کہاں پہ ہے، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ سینٹرل لندن کے کارپوریٹ وکیل، فائنینشل ایڈوائزرز، ویلتھ مینیجرز اور وہاں کے نظام میں چوری کے پیسے بارے lack of political will کا اس گندے دھندے میں کیا کردار ہے۔
مغربی میڈیا اور این جی اوز کا ایشیا و افریقہ بارے ایک خاص رویہ ہے، کہ یہاں کے نظام کو تو کرپٹ، نااہل دکھانا ہے لیکن اس نظام کو کرپشن کے لئے سہولت دینے بلکہ چوروں کے اثاثوں کو پارکنگ اور خود چوروں کو پناہ دینے کے عمل سے کیمرہ دوسری طرف پھیر لینا ہے۔ کارپوریٹ/وائٹ کالر جرائم کی جدید تاریخ برٹش ورجن آئی لینڈ جیسی آف شور اندھیر نگریوں، سوئٹزرلینڈ کے بینکوں اور نیویارک کی رئیل اسٹیٹ انڈسٹری کے بغیر نامکمل ہے!
مغرب نے ہم اہلِ مشرق اور بالخصوص تیسری دنیا کے لوگوں کی رسوائی کا سامان کرنے سے کبھی ہاتھ نہیں روکا ، لیکن یہ منی لانڈرنگ اور آف شور کمپنیوں جیسی لعنت کیا مغرب کے تعاون کے بنا ممکن تھی؟؟
پنڈورا لیکس کے بعد تیسری دنیا کے ممالک میں "ہمارے چور، اور تمہارے چور" والی بحث چھڑ گئی ہے، حالانکہ سوال تو یہ بنتا ہے، ان سب چوروں کے معاونین کون ہیں، مغرب میں کون سا نظام ہے، جہاں تیسری دنیا کا سرمایہ استعماری دور میں بھی جا کر گم ہو جاتا تھا اور آج بھی اس کا سراغ نہیں ملتا۔ فیس بک کے کمیونٹی اسٹینڈرڈز آڑے آ رہے ہیں ورنہ Moneyland کے مصنف برطانوی صحافی Oliver Bullough کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے سکرین شاٹس یہاں لگاتا! موقع ملے تو Moneyland اور Treasure Island جیسی کتابیں ضرور پڑھیں۔ یہ لیکس اور کرپشن انڈیکس ادھوری کہانیاں ہیں۔