پاناما سے پینڈورا تک ، پردے کے پیچھے کیا ہے؟؟؟
پانچ سال بعد بھی ابھی دنیا پاناما پیپرز کے وہ جھٹکے محسوس کر رہی تھی جنہیں سی این این کی کالمسٹ فریدا گائیڈس نے زلزلہ قرار دیا ۔
اسی دوران پاناما پیپرز پر کام کرنے والی صحافتی تنظیم آئی سی آئی جی نے پینڈورا پیپرز کے نام سے ایک اور پینڈورا باکس کھول دیا۔ دو ہزار سولہ میں جرمنی میں شائع ہونے والے ساڑھے گیارہ ملین پاناما پیپرز نے سوا دو لاکھ آف شورز کمپنیوں کی نشان دہی کی جو دنیا بھر سے مختلف شخصیات کی تھیں۔ یہ شخصیات سماجی، کاروباری، سیاسی سے لے کر عسکری سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھتی تھیں۔ پاناما پیپرز نے باہر آتے ہی دنیا بھر میں تہلکا مچا دیا۔ گو کہ ایک آف شور کمپنی رکھنا دنیا کے معاشی نظام میں کوئی جرم نہیں لیکن یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے ہمارے ہاں کوٹ میرج جرم تو نہیں لیکن جس کی ہو جائے لوگ اسے بہت سی قباہتوں کے باعث شک کی نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں۔ آف شور کمپنی جس شخص کی ہو اس پر سب سے پہلا شک یہ کیا جاتا ہے کہ اس نے یہ حرکت ٹیکس بچانے کے لیے کی ہو گی۔ پھر یہ شک کیا جاتا ہے کہ جس ٹیکس سے آزاد علاقے میں کمپنی ہے یہاں تک پیسہ پہنچانے کے لیے ضرور منی لانڈرنگ ہوئی ہو گی۔ اگر کسی ایسے شخص کی آف شور کمپنی نکل آئے جو عوامی عہدہ رکھتا ہو تو فوری پوچھا جانے لگتا ہے کہ آف شور کمپنی بنانے کے لیے اس کے پاس پیسہ کہاں سے آیا؟ آخر وہ کون سی ضروریات تھیں جن کے تحت اس نے یہ کمپنی بنائی؟
دو ہزار سولہ میں جب یہ پاناما پیپرز باہر آئے تو انہی سوالات کی وجہ سے دنیا بھر میں طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ ایسا طوفان جس کے اثرات اب بھی دو ہزار اکیس میں صاف دیکھے جا سکتے تھے۔ کئی سیاسی لیڈران کی آف شور کمپنیاں نکلیں تو مخالفین کے ہاتھ ان کی کمزوری آ گئی۔ کئی دیگر عہدے داران کے خلاف تحقیقات شروع ہوئیں اور عوام پورے زور سے سوالات کرنے لگی۔ دنیا کی وہ مشہور شخصیات جن کے نام پر آف شور کمپنیاں نکلیں، ان میں: آئس لینڈ کےوزیر اعظم سگمانڈر ڈیویو گن لوسن، سابقہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے والد اوئن کیمرون، روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے قریب ترین ساتھی ، آرکڈی روٹن برگ اور بورس روٹن برگ، بھارتی مشہور آداکار امیتا بھ بچن، مشہور ہالی ووڈ اداکار جیکی چین، یوکرین کے صدر وغیرھم شامل ہیں۔ ۔
پاناما پیپرز کے پانچ سالوں میں نتائج دیکھ کر ایک بات بہت حد تک واضح ہوئی ہے۔ ۔ وہ یہ کہ ہر ملک میں ممکنہ کرپشن کی اطلاع ایک جیسا نتیجہ نہیں دیتی۔ یعنی ایسا ملک جہاں ایسا سیاسی نظم ہے کہ عوام مضبوط ہیں اور اپنے حکمران کا احتساب کر سکتے ہیں وہاں اس کے نتائج اور ہیں اور ایسا ملک جہاں سیاسی و سماجی نظام ایسا ہے کہ حکمران مضبوط ہے اور عوام کمزور وہاں اس کے نتائج اور ہیں۔ اسی طرح ایسا ملک جہاں جمہوریت ہے اور ادارے مضبوط ہیں، وہاں نتائج مختلف ہیں اور ایسا ملک جہاں جمہوریت تو ہے لیکن اداروں سے زیادہ کوئی شخص یا گروہ مضبوط ہے وہاں اس کے نتائج اور ہیں۔ اس بات کی مزید وضاحت کے لیے آئیے چار ممالک کی مثالیں دیکھتے ہیں۔
سب سے پہلے آئس لینڈ کو لے لیتے ہیں۔ گن لو سن دو ہزار سولہ میں اس کے وزیر اعظم تھے۔ یہ وہ وزیر اعظم ہیں جنہوں نے دو ہزار آٹھ کے معاشی بحران کے بعد آئس لینڈ کی معیشت کو بحران سے نکالا۔ لیکن جب اپریل دو ہزار سولہ میں ان کی آف شور کمپنی نکلی تو عوام کے دباؤ کی وجہ سے انہیں استعفیٰ دینا پڑ گیا۔ یہ ہمارے پاس ایک ایسا ملک ہے جس کے عوام حکمران سے زیادہ مضبوط ہیں۔ انہوں نے اپنے حکمران کو کسی قسم کی دلیل کا سہارا لے کر اقتدار سے چمٹے رہنے نہیں دیا۔
اسی طرح سابقہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے والد جو دو ہزار دس میں انتقال کر چکے تھے، کی آف شور کمپنی بلیر مور فنڈ نکلی۔ برطانوی وزیر اعظم نے اس کمپنی میں شیئرز ہونے کا اعتراف کیا لیکن بتایا کہ وہ ان شیئرز کو ساڑھے اکتیس ہزار پاؤنڈ کے عوض وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی بیچ چکے اور اب ان کا اس آف شور کمپنی میں کوئی حصہ نہیں۔ ان پر بے تحاشہ تنقید ہوئی کیونکہ بلیر مور فنڈ تیس سالوں سے ٹیکس بچا رہا تھا۔ یہ بھی مطالبہ ہوا کہ وہ مستعفی ہوں لیکن کیمرون کسی نہ کسی طرح اس بحران سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ کیونکہ قانون کے مطابق ان کا جرم نہیں نکلا تھا۔ عوام اور ادارے ان کو کٹہرے میں لے آئے تھے لیکن برطانوی قانون کے مطابق انہوں نے جرم نہیں کیا تھا اس لیے وہ اپنا اقتدار بچا گئے۔ یہ بھی ہمارے پاس ایک ایسے ملک کی مثال ہے جہاں ادارے اور عوام موط ہیں اور کچھ نہ کچھ قانون کی بالا دستی ہے۔
اب آئیے اس کے الٹ روس کی مثال لے لیتے ہیں۔ پاناما پیپرز میں روسی صدر کے قرابت داروں کی کمپنیاں نکلیں اور شک کیا جانے لگا کہ دراصل یہ صدر پیوٹن کی ہیں۔ روسی صدر نے اسے مغربی ممالک کی سازش قرار دیا۔پیوٹن کی حکومت پر سخت گرفت ہونے کی وجہ سے تحقیقات نہیں ہونے دی گئیں۔ یہاں ایسا سیاسی و سماجی نظم تھا جہاں حکمران، عوام اور اداروں سے زیادہ مضبوط تھا۔ لہٰذا وہ مغربی سازش کی دلیل کا سہارا لے کر صاف بچ گیا۔
اسی طرح یوکرائن کے صدر پیٹرو پوروشینکو جو صدر بننے سے پہلے بھی ارب پتی کاروباری آدمی تھے ،کی آف شور کمپنیاں نکلیں۔ ان پر بے حد تنقید ہوئی۔ یہ بھی الزام لگا کہ وہ ان کمپنیوں کے ذریعے ٹیکس چوری میں شریک ہیں۔ لیکن پوروشنکو کسی نہ کسی طرح اپنا اقتدار بچا گئے۔ یہاں عوام مضبوط نہیں تھے۔ اس لیے ایک گروہ اپنا من چاہا حکمران قائم رکھنے میں کامیاب رہا۔
آئیے اب پاکستان کا احوال لے لیتے ہیں۔ یہاں صرف دو چار فقروں میں پاناما کے بعد حالات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ آپ خود فیصلہ کر یں کہ پاکستان میں ممکنہ کرپشن کی اطلاع کے نتائج کیا نکلے ہیں۔ اس سے آپ کو یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ پاکستان میں کس قسم کا سیاسی و سماجی نظم قائم ہے۔
اپریل دو ہزار سولہ میں جب پاناما پیپرز باہر آئے تو پاکستان کے چار سو افراد کی آف شور کمپنیاں نکلیں۔ اس میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کا گھرانا بھی شامل تھا۔ گو کہ اس میں براہ راست نواز شریف کی کمپنی تو نہیں تھی لیکن ان کے تین بچوں حسن نواز، حسین نواز اور مریم نواز کے نام پر آٹھ آف شور کمپنیوں کا الزام لگا۔ وزیر اعظم بار بار آف شور کمپنیوں کا انکار کرتے رہے اور اپنے بچوں کے بارے میں کہتے رہے کہ وہ ان کے کفیل نہیں، وہ خود مختار ہیں۔ بہرحال کیس سپریم کوٹ پہنچا، جہاں پاناما پیپرز پر تحقیقات ہوئیں۔ کوئی خاطر خواہ ثبوت نہ مل سکے جو وزیر اعظم کو مجرم ثابت کرتے۔ لیکن دبئی سے ایک اقامہ ملا۔ یہ بتایا گیا کہ دبئی میں ایک کمپنی ہے جو وزیر اعظم کے بیٹے حسین نواز کے نام پہ ہے۔ وزیر اعظم اس سے تنخواہ لیتے ہیں، لیکن اس بات کا اعلان انہوں نے اپنے الیکشن کمشن کے کاغذات نامزدگی میں نہین کیا۔ اس بات پر وزیر اعظم کو نا اہل قرار دے کر وزارت عظمیٰ سے فارغ کر دیا گیا۔
یہ تو کاروائی ہوئی وزیر اعظم کے خلاف۔ لیکن پاناما اور پینڈورا پیپرز کے پیچھے صحافتی تنظیم انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹیگیٹو جرنلزم کے پاکستانی رکن صحافی عمر چیمہ کے مطابق ، پاناما پیپرز میں پاکستان کے چار سو افراد کا ذکر تھا۔ سب سے زیادہ آف شور کمپنیاں شریف خاندان کی تھیں۔ شریف فیملی کے علاوہ پانچ سالوں میں کسی کے خلاف خاطر خواہ کاروائی نہیں ہوئی۔
یہ تھا پاناما پیپرز کا پاکستان میں کل افسانہ ۔ اب پینڈورا پیپرز کا شورہ ہے۔ دنیا میں خوب شور مچا ہوا ہے۔ اخبارات لمحہ بہ لمحہ خبروں سے اگاہ کر رہے ہیں۔ کئی ممالک میں تحقیقات شروع ہو گئی ہیں۔ دیکھیے اب پاکستان میں کیا ہوتا ہے۔