پلکیں نیند سے بوجھل ہیں یا اب منظر کی تاب نہیں

پلکیں نیند سے بوجھل ہیں یا اب منظر کی تاب نہیں
کیوں ان جلتی آنکھوں میں اب رنگ برنگے خواب نہیں


اک مدت سے کس ناطق کی نوک زباں پر اٹکا ہوں
میں اک لفظ ہوں گویا وہ بھی معنی سے سیراب نہیں


آنکھیں ہیں یا خار مغیلاں چہرہ ہے یا صحرا ہے
لفظ بہت نایاب ہیں پیارے درد مگر نایاب نہیں


میری بلا سے جھکنے والوں میں معبود بھی شامل ہوں
لیکن میرے سجدوں میں بت خانے کے آداب نہیں


فطرت کا پیغمبر کیا جانے سمجھوتے کی باتیں
دریا مڑ سکتے ہیں لیکن دریا کے سیلاب نہیں


آنکھیں اور چنیں گی کب تک آخر منظر کی کرچیں
مجھ میں تو اب جیسے اپنی نظروں کی بھی تاب نہیں