پاکستانی کرکٹ پر کتب

 2015 میں،   پاکستان کے اندر کرکٹ کی تاریخ کا احاطہ کرتی، عثمان سمیع الدین کی The Unquiet Ones اور Peter Oborne کی Wounded Tiger نامی کتابیں منظر عام پر آئیں۔ یہ   پاکستان  میں کرکٹ اور اس کے گرد معاشرتی تبدیلیوں کو ریکارڈ کرنے کے حوالے سے بہت خوش  آئند  اضافہ ہیں۔

 

دونوں  کتب پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ کو خلاء میں دیکھنے کی  بجائے، ان حالات، عوامل و ماحول کا  جائزہ لیتی ہیں جن میں پاکستانی کرکٹ پروان  چڑھی۔ دونوں نے اپنی کتابوں میں ان  سیاسی  اور سماجی  مدوجذر کو سمجھنے کی کوشش کی ہے جن سے پاکستانی کرکٹ متاثر  ہوئی۔ 

 

عثمان سمیع الدین ایک نوجوان لیکن خاصے معروف کرکٹ کےصحافی   ہیں۔ وہ کرکٹ کے ایسے پرجوش پرستار کی طرح لکھتے ہیں جو کھیل کی تکنیکی خصوصیات اور باریکیوں سے بخوبی واقف ہو۔  وہ اپنی کتاب میں بڑے مزاحیہ اور ہلکے پھلکے انداز میں ان واقعات کو بھی  بیان کرتے ہیں  جو  پاکستانی کرکٹ میں ہونے والے  مزحکہ خیز  واقعات کی وضاحت کر  سکیں۔ ان کی کتاب، The Unquiet Ones، پاکستان کرکٹ  کے ایک باشعور مداح کی تاریخ ہے، جس میں ثقافتی، سماجی اور سیاسی  پہلوؤں پر بھی توجہ مرکوز  کی گئی ہے۔ انہوں نے صرف خشک حقائق و اعدادوشمار  کو بیان کرنے کی بجائے، کھلاڑیوں کی نجی زندگیوں میں پھوٹنے والے  جوار بھاٹوں کو بھی تحریر کیا ہے۔ عثمان پاکستانی کرکٹ کے کچھ سرکردہ افراد اور کچھ غیر واضح شخصیات کے ساتھ جڑے مختلف تنازعات  کو اپنی کتاب میں اکٹھا کرتے ہیں اور ، سابق کپتانوں، بلے بازوں، باؤلرز اور چیفس سے متعلق کچھ دلچسپ   کہانیاں بیان کر  کے ان کی شخصیت کی منظر کشی کرتے ہیں۔

عثمان،تاریخ میں ہونے والے واقعات  پر تجزیہ کرکے اپنی کتاب کا پیٹ نہیں بھرتے ۔ اس کے بجائے، عثمان کو پاکستانی کرکٹ کی تاریخ  کو مزاحیہ اور ہلکے پھلکے انداز میں بیان کرنے میں  مزہ آتا ہے۔ بہت سے دلچسپ، مضحکہ خیز، پیچیدہ اور بعض اوقات بالکل عجیب و غریب واقعات  کو وہ بڑی شگفتگی سے بیان کر جاتے ہیں۔ ان کے اس انداز سے پاکستان  کرکٹ میں آنے والے  اتار چڑھاؤ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ان کا انداز بیاں کتاب کو بہت دلکشی عطا  کرتا ہے۔  کرکٹ کے بہت سے  رموز سے پردہ فشانی کرتی  اس کتاب کا   لہجہ بہت پرجوش ہے اور پاکستانیوں کے اندر دوڑنے والے اس کھیل سے متعلق جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے عثمان نے  پوری کتاب میں پاک بھارت ٹاکرے کو قلم بند کیا  ہے، جس میں  دونوں اطراف کے ابلتے جذبات کتاب کی سطور کے  درمیان آ گئے ہیں۔

پاکستان کے پہلے ٹیسٹ کپتان عبد الحفیظ کاردار کے ابھرنے  یعنی 1950 کی دہائی کے اوائل سے ،کرکٹ کلچر  کے تمام پرتو   کا احاطہ  کر کے عثمان نے بہت   اہم خدمت کی ہے۔ خاص طور پر اس دور  میں  جب  نوجوان  اپنی تاریخ سے لابلد  ہوتے جا  رہے ہیں اور اس بات کی شدید کمی محسوس کی جا رہی ہے کہ کوئی ایسی دستاویز ہو جس سے کرکٹ کے ارتقا کو سمجھا جا سکے اور نوجوانوں کو اس سے واقف کروایا جا سکے۔

          یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ عثمان نوے کی دہائی کے بعد پاکستان کی کرکٹ میں پھوٹنے والے واقعات کو ضبط تحریر میں نہیں لائے یا لائے  بھی ہیں تو بالکل سرسری سا۔ ایسے قارئین جو ان واقعات  کا جائزہ لینا چاہتے ہیں جن سے آج کی کرکٹ متاثر ہے،  خاصا خود کو تشنہ پاتے ہیں۔

The Unquiet Ones ،قارئین کے لیے ایک ہنگامہ خیز   تاریخی کتاب ہو سکتی تھی جو ڈریسنگ رومز اور کرکٹ کے میدان سے باہر ان واقعات کا احاطہ کرتی جو اسٹمپ مائیکروفونز اور ٹی وی کیمروں سے کافی حد تک قید نہیں ہو پائے۔

لیکن پھر یہی وجہ ہے کہ جب عثمان کی کتاب پاکستان کرکٹ کے آخری عشرے کی طرف تیزی سے آگے بڑھتی ہےتو  قاری اس وقت تشنہ رہ جاتا ہے جب وہ 2000 کی دہائی میں پاکستان کرکٹ کی سب سے متنازعہ قسطوں میں سے ایک پر برائے نام تبصرہ کرتے ہیں۔

 

آئیے اب ہم او بورن کی کتاب وونڈڈ ٹائگرز کا  جائزہ لے لیتے ہیں۔ بہت سے غیر پاکستانی کرکٹ شائقین کی طرح اوبرن بھی پاکستان کے کرکٹ کلچر کی غیر متوقع اور متاثر کن نوعیت سے واضح طور پر  واقف ہیں۔ وہ اس بات سے بھی زیادہ  متاثر ہیں کہ  کرکٹنگ کلچر پاکستان کی سیاست اور  معاشرے کی حرکیات کا کتنا واضح آئینہ دار ہے۔

ان کی کتاب  میں وسیع تحقیق کی گئی ہے اور وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی پیچیدگیوں  کا کرکٹ پر دباؤ بہت زیادہ دیکھتے ہیں۔ وہ ان محرکات کا کھل کر  اظہار کرتے ہیں جنہوں نے ملک کی کرکٹ کی منصوبہ بندی کے بہت سے پہلوؤں اور تبدیلیوں کو متاثر کیا ہے۔

او برن کی کتاب کا انداز برجستہ اور باخبر  ہے جب تک کہ یہ 1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ کے قریب آنا شروع نہیں کرتی جو پاکستان نے جیتا تھا۔

جہاں عثمان  نے 2000 کی دہائی میں پاکستان کرکٹ کو متاثر کرنے والے کانٹے دار مسائل پر تبصرہ کرنے  سے گریز  کیا ہے ، وہیں اوبرن کی کتاب بھی 1980 کی دہائی کے وسط سے گزرنے کے بعد  واقعات کو تیزی سے سمیٹنے لگتی ہے۔

 اوبرن نے 1980 کے وسط کے بعد دلچسپی کھو دی، خاص طور پر جاوید میانداد کی کپتانی کے خلاف 1982 کے کھلاڑیوں کی بغاوت کو تفصیل سے بیان کرنے کے بعد۔ اس کے بعد یہ کتاب 2003 اور 2007 کے درمیان میچوں اور میچ فکسنگ، کپتانی کے جھگڑوں اور مذہبیت کے عروج جیسے مسائل کے بارے میں اخباری بیانات سے اخذ کردہ ایک تالیف بن جاتی ہے۔

یہ ایک  دل خراش بات ہے، کیونکہ اگر ان تمام مسائل کو وہی علمی  درجہ دیا جاتا جو Oborne 1952 اور 1985 کے درمیان پاکستان کرکٹ کی تاریخ کو   دیتے ہیں ، تو یہ کتاب شاید پاکستان کرکٹ پر لکھی گئی سب سے جامع تاریخوں میں سے ایک بن جاتی۔