پاکستان سپر لیگ: پڑھیے دلچسپ حقائق اور باتیں
لیں بھئی ستائیس جنوری سے پاکستان میں ساتواں کرکٹ کا سپر لیگ میلا سج گیا ہے۔ اب شائقین جھومیں گے اور روپے گھومیں گے۔ پورے میلے میں کہاں کہاں شائقین جھومیں گے اور کہاں کہاں روپے گھومیں گے، آپ کو آج پڑھنے کو ملے گا۔ کان ادھر لائیے، چھے کی چھے فرنچائزز اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے مابین مال کی تقسیم پر پھڈے بھی ہوئے ہیں۔ بات لاہور ہائی کورٹ تک پہنچی تھی۔ میڈیا میں سب رپورٹ ہوا ہے۔ مجھے پتہ ہے آپ نے پڑھا نہیں ہوگا۔ میں آپ کو اس کے قصے بھی سناؤں گا۔
پہلے بات کر لیتے ہیں پاکستان سپر لیگ کی سات سال کی تاریخ کا۔ ان سات سالوں میں سب سے اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ کرکٹ پاکستان میں واپس آئی ہے۔ نہیں تو آپ کو تو پتہ ہے جب 2009 میں سری لنکا کی ٹیم پر حملہ ہوا تھا تو ہماری عوامی صحت مند تفریح یعنی کرکٹ کو کس قدر دھچکا لگا تھا۔ عجیب دور تھا ویسے وہ بھی۔ بم بھی ہم پر پھٹتے تھے اور دہشت گرد بھی ہم ہی تھے۔ خیر سپر لیگ کی تاریخ پر بات کر رہے تھے ہم۔ پہلا سپر لیگ میلا 2016 میں پاکستان کرکٹ کے دوسرے گھر یعنی متحدہ عرب عمارات میں ہوا تھا۔ اس میں پانچ ٹیمیں تھیں اور اسے اسلام آباد یونائیٹڈ نے جیتا تھا۔ آج پاکستان کرکٹ کا دوسرا گھر خود انتہائی غیر محفوظ ہوا پڑا ہے۔ یمنی حوثی میزائل مار رہے ہیں اسے۔ گوگل کر کے پڑھیے گا مزید اس بارے میں اور دعا کیجیے گا مسلمانوں کی آپسی لڑائیاں بند ہوں۔ دوسرا پی ایس ایل 2017 میں ہوا، جس کا فائنل قذافی سٹیڈیم لاہور میں ہو ا تھا۔ پشاور زلمی نے کوئٹہ گلیڈیٹرز کو ہرا دیا تھا اس میں۔ پشاور زلمی کی فرنچائز کے مالک جاوید آفریدی نے اسی خوشی میں آج کل اپنے ہاں برینڈ امبیسڈرز کے نام پر اداکاراؤں کا لنڈا بازار لگا رکھا ہے۔ آپ دیکھ کر بتائیے گا کونسی بڑی اداکارہ اس میں محروم رہ گئی ہے۔ ویسے تو مجھے امید ہے کہ سب کے نام آپ کو ازبر ہوں گے لیکن پھر بھی گوگل کو چھیڑنے کی خاطر دوبارہ چیک کیجیے گا۔ شاید کوئی نیا نام بھی آپ کو مل جائے۔
تیسرا پی ایس ایل 2018 میں ہوا جسے ایک بار پھر اسلام آباد یونائیٹد جیت گیا۔ فائنل اس کا کراچی میں ہوا تھا، جبکہ دونوں سیمی فائنلز لاہور میں۔ ملتان سلطان اس پی ایس ایل میں نئی انٹری تھی۔ یہ نئی انٹری علامتی طور پر ریاست پاکستان میں کچھ تبدیلی کا بھی عندیہ دیتی ہے۔ جنوبی پنجاب سے کوئی سیرائیکی بھائی ملے تو اس سے اس علامت کی تفصیل پوچھیے گا۔ تھوڑا سا ہنٹ دے دیتا ہوں۔ غور کریں باقی تمام ٹیمیں دارالخلافہ و دارالحکومت کے ناموں پر ہیں۔ یہ ملتان بھلا کس صوبے کا دارالحکومت ہے جس کی ٹیم آ گئی؟ اگلے تینوں پی ایس ایل بالترتیب کوئٹہ گلیڈیٹرز، کراچی کنگز اور ملتان سلطان جیتے۔ پچھلے چھ پی ایس ایل کے دوران ہمارے لیجنڈ سٹار بابر اعظم نے سب سے زیادہ 2070 رنز تینتالیس کی اوسط سے بنائے۔ ان کے پیچھے پیچھے انہیں کے رشتہ دار کامران اکمل ہیں ، جنہوں نے اٹھارہ سو بیس رنز بنائے۔ پھر ہماری موجودہ کرکٹ کے معمر مگر فٹ کھلاڑی شعیب ملک ہیں اور پھر آسٹریلین بیٹس مین شین واٹسن۔
باؤلنگ کی اگر بات کی جائے تو وہاب ریاض سب سے ٹاپ پر ہیں۔ انہوں نے چورانوے کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ پھر حسن علی چوہتر وکٹس لے کر دوسرے نمبر پر ہیں، پھر فہیم اور پھر محمد نواز۔
یہ تمام سٹارز جب جب چوکے چھکے لگائیں گے یا وکٹیں اڑائیں گے، شائقین خوب جھومیں گے۔ لیکن روپے کہاں گھومیں گے، اب اس کا ذکر کر لیتے ہیں۔ ان کے بغیر آج کی دنیا میں کوئی گاڑی نہیں چلتی۔ اپنی الف یار بھی نہیں۔ چلیں چلیں مضمون پڑھیں۔ جملہ معترضہ تھا بس!
ہمارے پی ایس ایل میں چار فریقین کے مابین براہ راست اور ان سے ہٹ کر بلاواسطہ دیگر سٹیک ہولڈرز میں پیسہ گھومتا ہے۔ چار برائے راست فریقین ہیں: پاکستان کرکٹ بورڈ، چھے فرنچائزز، میڈیا اور کھلاڑی۔ 2015 میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے پی ایس ایل کے لیے پانچ فرنچائزز دس سال کے لیے ترانوے ملین ڈالرز کی بیچیں۔ سب سے مہنگی کراچی کنگز کی فرنچائز 2.6 میلین ڈالرز سالانہ کی بکی۔ اسے اے آر وائی میڈیا گروپ نے خریدا۔ پھر لاہور 2.5 ملین ڈالر کی بکی۔ اسے قطر آئل کمپنی کالکو نے 2.5 ملین ڈالر سالانہ میں خریدا۔ اسلامآباد یونائٹڈ 16.1 ملین ڈالرز سالانہ میں بکی۔ اسے لیولائن گلوبل نے خریدا۔ پشاور زلمی کو ہائر کے جاوید آفریدی نے 1.6 ملین ڈالر سالانہ میں خریدا اور کوئٹہ گلیڈیٹرز کو عمر اسوسیایٹس نے 1.1 ملین ڈالر سالانہ میں ۔ بعد میں 2018 کے دوران ملتان سلطان چھٹی فرنچائز کے طور پر سامنے آئی اور سب سے مہنگی بکی۔ اسے جہانگیر ترین کی اولاد نے 6.5 ملین ڈالر سالانہ میں خریدا۔ درج بالا سرمایہ داروں نے پہلے فرنچائزز میں سرمایہ کاری کی اور پھر عالمی اور مقامی کھلاڑیوں سے معاہدات کیے۔ ہر فرنچائز کا میڈیا پارٹنر بھی تھا۔ یوں سپر لیگ کا میلا سج گیا۔ ہر میلے میں سرمایہ کاروں اور پاکستان کرکٹ بورڈ نے دو تین مین جگہوں سے کمایا۔ ایک میچز کو نشر کرنے کے حقوق، دوسرا سپانسرز اور تیسرا میچز کی ٹکٹس۔ کل ریونیو کرکٹ بورڈ اور تمام فرنچائزز کے مابین خاص فارمولے کے تحت تقسیم کیا گیا۔ اسی موڈل پر فرنچائزز اور کرکٹ بورڈ کے مابین تنازعات ہوئے اور 2020 میں بات لاہور ہائی کورٹ تک گئی۔ فرنچائزز کا کہنا تھا کہ موجودہ معاشی موڈل سے انہیں سالانہ ڈیڑھ سے پونے دو ملین ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے، لہٰذا اسے بدلا جائے۔ اس کی وجہ، ان کے مطابق کرونا وبا اور روپے کی قدر میں کمی ہے۔ جبکہ کرکٹ بورڈ کا کہنا تھا کہ اسی معاشی ماڈل پر فرنچائزز نے دس سالوں کے لیے معاہدات کیے ہیں۔ انہیں اسی کے مطابق چلنا ہوگا۔
خیر اب کرکٹ بورڈ نے فرنچائزز کی بات مانتے ہوئے معاشی ماڈل میں تبدیلیاں کر دی ہیں۔ بھئی وہ کون سا ہم سے غریب غربا تھے جن کی شنوائی نہ ہوتی۔
خیر، ساتواں میلا اب سج چکا ہے اور میچز ہیں۔ کمانے والے کما رہے ہیں، کھیلنے والے کھیل رہے ہیں۔ ہم تو تماش بین ہیں اور دیکھ رہے ہیں تماشہ۔ کھیل ہو سیاست ہو یا جنگ۔ ہمارا کردار مشکل سے ہی بدلتا ہے۔ یار بتانا آج کس کس کا میچ ہے؟