سیاسی عدم استحکام یا معیشت، پاکستان کا اس وقت بڑا مسئلہ کیا ہے؟
بھئی پاکستان میں فوری انتخابات ہوں گے یا اگلے سال؟ ………پتہ نہیں۔
آئی ایم ایف پاکستان کو قرضے کی قسط جاری کر دے گا؟……… پتہ نہیں۔
حکومت پٹرول اور گیس پر سے سبسڈی ہٹا کر انہیں مہنگا کرے گی؟ ……… پتہ نہیں۔
یہ عمران خان جو سازش سازش کرتے پھرتے ہیں، کیا اس میں کچھ حقیقت ہے؟……… پتہ نہیں۔
آج کل ریاست پاکستان میں پتہ نہیں کا دور دوراں ہے۔ کون کیا کرنے جا رہا ہے، کیا کر رہا ہے، کیا ہوگا؟ کیسے ہوگا؟ کیوں ہوگا؟ کون کرے گا؟ کس نے کیا ہے؟ کیسے کیا ہے؟ کب کیا ہے؟ کس کے ساتھ مل کے کیا ہے؟ کون پیچھے ہے؟……… کچھ پتہ نہیں۔ شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پتہ لگانے کے ذرائع ابلاغ بڑھ گئے ہیں۔
خیر! نتیجہ اس سب کا صاف ہے۔ غیر یقینی ہے، عدم اعتماد ہے، عدم تحفظ ہے، سراسیمگی ہے اور یوں عدم استحکام ہے۔
یہ تو سب جانتے ہیں کہ پاکستان اس وقت شدید معاشی مسائل کا شکار ہے۔ معیشت دانوں کے مطابق اس وقت جو مسئلہ درد سر بنا ہے وہ ادائیگیوں کے توازن کا ہے۔ یعنی پاکستان نے جو بطور ریاست ادائیگیاں کرنی ہیں اس کے لیے خزانے میں پیسے کم ہیں۔ دوسرے الفاظ میں پاکستان کی درآمدات زیادہ ہیں برآمدات کم۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان چیزیں درآمد زیادہ کر رہا ہے اور برآمد کم ،جس سے ریاست کے خزانے میں ڈالر کم آ رہے ہیں۔ اسے ریاست کا تجارتی خسارہ کہتے ہیں۔
پاکستان کے موجودہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے مطابق پاکستان اس سال تیس ارب ڈالر کی چیزیں باہر بھیجے گا۔لیکن جو منگوائے گا اس کی قیمت ممکنہ طور پر پچھتر ارب ڈالر تک ہوگی۔ صاف بات ہے، یہ پنتالیس ارب ڈالر ریاست پاکستان کہاں سے لائے گی، جس کا فرق آ رہا ہے۔ آخر جو منگوایا ہے اس کی قیمت بھی تو ادا کرنی ہے ناں۔ مفتاح اسماعیل صاحب کا خیال ہے تیس ارب ڈالر کے نزدیک ترسیلات زر پاکستان میں آ جائیں گی۔ یوں پاکستان کے خزانے میں ساٹھ ارب ڈالر آ جائیں گے۔ ابھی بھی پندرہ ارب ڈالر کا فق ہے۔ یہ کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ ہے۔ یعنی مفتاح اسماعیل کے مطابق اس سال کے اختتام تک پاکستان کا تجارتی خسارہ پینتالیس ارب ڈالر اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پندرہ ارب ڈالر ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ صرف اس سال نہیں ہو رہا۔ پچھلے سالوں میں بھی یہی حساب تھا۔ صرف اتنا ہوتا تھاکہ کبھی زیادہ اور کبھی کم۔ اسی ادائیگیوں کے عدم توازن کے باعث پاکستان کو آئی ایم ایف جیسے اداروں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔
ادائیگیوں کے فرق کو مٹانے کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک پاکستان اپنی درآمدات اور دیگر اخراجات کم کر لے یا دوسرا اپنی برآمدات سمیت آمدن بڑھا لے۔ پاکستان کی برآمدات کیوں بڑھ نہیں پا رہیں، اس کے لیے کہا جاتا ہے کے معیشت کے سٹرکچرل مسائل ہیں۔ یعنی نہ پاکستان اپنی زرعی پیداوار اتنی بڑھا پا رہا ہے کہ برآمد کرے، نہ کوئی پاکستان میں ایسی مینوفیکچرنگ بہت زیادہ ہے اور نہ ہی پاکستان کوئی ایسی خدمات دنیا میں بیچتا ہے جن سے خطیر رقم کمائی جا سکے۔
آپ ذرا یہ دیکھیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ لیکن پاکستان اس سال پچھتر ارب ڈالر میں سے آٹھ ارب ڈالر کی زرعی اجناس، مثلاً خوردنی تیل، گندم، چینی، کپاس وغیرہ منگوانے جا رہا ہے۔
ظاہر ہے یہ مسائل اسی لیے ہیں کہ پاکستان میں حکومتی پالیسیاں درست نہیں، لوگوں کے پاس مہارت نہیں، موافق حالات نہیں اور سرمایہ نہیں۔
آپ کو لگتا ہے ایک مستحکم اور اہل حکومت کے بغیر یہ مسائل حل کیے جا سکتے ہیں؟ ایسی حکومتیں جو سارا وقت اپنی بقا کی جنگ ہی لڑتی رہیں وہ ان غور طلب اور لانگ ٹرم مسائل کو حل کر سکتی ہیں؟
پاکستان کا المیہ ہی یہی رہا ہے۔ یہاں سیاسی استحکام پیدا ہو ہی نہیں پاتا۔ میرے خیال میں یہ کرپشن سے بڑھ کر مسئلہ ہے۔ یہاں ایک سیاسی حکومت آتی نہیں وہاں کچھ سیاسی اور کچھ غیر سیاسی طاقتیں حکومتوں کے ناک میں دم کر دیتی ہیں۔ حکومتیں ان سے بقا کی جنگ میں جت جاتی ہیں اور ہمارے مسائل دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
پاکستان کے سیاسی منظر پر مسئلہ ابھی بھی اسی قسم کا ہے۔ سیاسی حکومت کو مشکل معاشی فیصلہ کرنا ہے۔ یعنی آئی ایم ایف کے چلتے ہوئے پروگرام کے تحت تیل پر سے سبسڈی فوری ہٹانی ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو آئی ایم ایف قرض کی قسط جاری نہیں کرتا اور دیگر ملک بھی ادھار نہیں دیتے۔ اگر پاکستان کو قرض نہیں ملتا تو فوری اس بات کا حل موجود نہیں کہ پندرہ ارب ڈالر کے تجارتی خسارے پر کیسے قابو پایا جائے۔ بہر حال حکومت کو کوئی ایسا فیصلہ کرنا ہے کہ آئی ایم ایف قرضے کی قسط جاری کر دے۔
لیکن دوسری طرف حکومت کو یہ یقین نہیں کہ وہ کسی مشکل فیصلے کو کرنے کے بعد اقتدار میں حالات کو قابو کرنے کے لیے رہے گی یا نہیں۔ یعنی وہی پتہ نہیں کا راج، غیر یقینی اور عدم استحکام۔ آہ کہ کہیں تو کچھ یقین ہو۔ پھر ہی حالات بدلنے کی طرف قدم اٹھے گا۔ ہمیں بطور عوام چاہیے کہ ہم اپنی سیاسی حکومتوں پر اعتماد کریں۔ اس بات سے انکار نہیں کہ بہت سی غلطیاں، کوتاہیاں ہیں ان کی جانب سے۔لیکن ہماری بد اعتمادی کوئی نتیجہ نہیں نکالے گی۔ ہمیں دستیاب قیادت کے ساتھ کھڑے ہو کر ہی اصلاح کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔