پاکستان اور بنگلہ دیش: دوسرا ٹیسٹ میچ
ایک اننگ اور 8 رنز کی جیت سالوں یاد رکھی جائے گی لیکن اس سے پہلے صرف ایک بات۔
یہ ہے ٹیسٹ کرکٹ ، اس کا اپنا ہی دستور ہے، اپنا ہی مزہ ہے اس میں جو کھڑا رہتا ہے، ڈٹا رہتا ہے، ثابت قدم رہتا ہے، جو صابر و شاکر رہتا ہے وہی منزل پاتا ہے۔
پہلی اننگ میں صرف 87 رنز پر ڈھیر ہونے والی بنگلہ دیش کی ٹیم جب فالو آن کے بعد دوسری اننگ میں کھیلنے آئی اور 25 رنز پر 4 وکٹیں گنوا بیٹھی تو لگتا یہی تھا کہ چائے کے وقفے تک ساری ٹیم ڈھیر ہو جائے گی۔
لیکن پہلی اننگ کے بر عکس بنگلہ دیشی مڈل آرڈر نے دوسری اننگ میں ابتدائی جھٹکوں کے بعد جس طرح پہلی اننگ کے ہیرو ساجد خان کو نشانے پہ رکھا ا، ُس پر اٹیک کیا تو لگتا یہی تھا کہ وہ ساجد خان کو خود پر حاوی نہیں ہونے دینا چاہتے اور اُسے اٹیک کر کے انڈر پریشر کرنا چاہتے ہیں، کافی حد تک وہ اس میں کامیاب بھی رہے اور پہلی اننگ والی غلطیاں بھی نہیں دُہرائیں۔
لیکن لٹن داس نے سیٹ ہونے کے بعد بالآخر وہ غلطی کر دی جس کا ساجد خان اور کپتان بابر کو انتظار تھا ۔ ایک گندی شارٹ مار کر آؤٹ ہوئے لیکن وہ کافی حد تک ڈیمیج کنٹرول کر گئے تھے۔
مشفق الرحیم اور شکیب دونوں ہی بنگلہ دیش کے سینئیر ترین کھلاڑی ہیں اور اُن سے جو اُمیدیں تھیں وہ اُس پر پورا اُترتے نظر بھی آئے لیکن ایک فضول رن لیتے ہوئے مشفق الرحیم بد قسمت رہے اور کریز میں پہنچ کر بھی نا پہنچ سکے اور رن آؤٹ ہو گئے۔
اُس کے بعد آج کی دنیا کے سب سے بہترین آل راؤنڈر نے اپنی بیٹنگ کی کلاس دکھائی ۔مہدی حسن کے ساتھ مل کر وہ کارنامہ سر انجام دینا شروع کیا جس کی توقع صبح کی حالت دیکھ کر اس میچ میں بالکل نہ تھی ۔
شکیب الحسن نے اپنی خوب صورت اننگ میں نا صرف 63 رنز جوڑے بلکہ وہ مہدی حسن کے ساتھ مل کر پاکستانی باؤلرز کے سامنے کوہِ ہمالیہ بن گئے جسے سر کرنے کی سبھی نے کوشش کی لیکن بے سود۔
وقت گزرتا جا رہا تھا، اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا اور منزل ابھی بہت دور تھی۔
پھر نا جانے کپتان کو کیا خیال آیا اور انہوں نے بال خود تھام لی اور ایک آخری کوشش کی اس ہمالیہ کو سر کرنے کی۔
اور پھر آنکھ نے وہ منظر دیکھا جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ کپتان نے مہدی حسن میراج کو اپنی گھومتی ہوئی بال پر ایسا چکما دیا کہ وہ ہمالیہ کی چوٹی سے سیدھے اوندھے منہ نیچے آ گرے اور بنگلہ دیشی دفاعی لائن میں شگاف پڑ گیا۔
بس اسی کی دیر تھی باقی کا کام ہمارے ٹیپو سلطان ساجد خان نے تمام کر دیا۔
جس میچ کے تقریباً سات سیشن بارش اور کم روشنی کے نظر ہو گئے اُس میچ میں بھی پاکستانی ٹیم نے جیت کا راستہ تلاش کر لیا۔
جس میچ میں جیت کی اُمید تک نہیں تھی اُس میچ میں جیت کا ایسا دیا جلایا کہ ہر سُو روشنی پھیل گئی اور سبھی کو کہنا پڑا یہ ہے ٹیم پاکستان۔
میچ کے ہیرو رہے ہمارے ٹیپو سلطان نما آف سپنر ساجد خان، جنہوں نے ایک میچ میں دس وکٹیں لینے کا بڑا کارنامہ سر انجام دیا اور وہ چوتھے آف سپنر باؤلر بنے پاکستان کی طرف سے جنہوں نے کسی میچ میں دس یا اُس سے زائد وکٹیں حاصل کیں۔
عابد علی مین آف دی سیریز رہے وہ پوری سیریز میں سب سے زیادہ پُر اعتماد نظر آئے اور بہترین بلے بازی کی۔
دوسری اننگ میں بنگلہ دیشی بیٹنگ لائن نے غلطیاں کم کیں اور بھرپور مقابلہ کیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لگنے لگا کہ اب یہ میچ ڈرا ہی ہوگا۔ اس لئے کہنا پڑے گا ویل پلیڈ بنگلہ دیش۔
آخر میں سبھی پاکستانیوں کو اس شاندار جیت پر مبارک باد۔
اور سپیشلی ٹیم پاکستان کو مبارک باد جس نے ناممکن کو ممکن بنا دیا ایک بے جان میچ میں جان ڈال دی اور ہماری جان میں جان آئی۔
ویل دن ٹیم پاکستان۔
ویل ڈن کپتان بابر اعظم۔
ویل ڈن کوچنگ سٹاف ۔ بالخصوص ثقلین مشتاق جن کا اثر ساجد خان کی شکل میں نظر آیا ۔