کچھ مرد "زنانے" کیوں ہوتے ہیں؟
زی ٹی وی پررواں برس مارچ میں نعمان اعجاز اور صبا قمر کی ویب سیریز "مِسز اینڈ مِسٹر شمیم" ریلیز ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس ویب سیریز میں نعمان اعجاز کا عورت نما مرد کا کردار زیر بحث ہے۔کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں ان عورت نما مرد وں کو کیا کہا جاتا ہے۔۔۔ان کا سماج میں کیا مقام ہے اور یہ کن مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔۔۔آج کی تحریر اس سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی ایک کوشش ہے۔
آپ نے اپنے ارد گرد یقینا کئی ایسے افراد دیکھے ہوں گے جو ویسے تو ہر لحاظ سے مکمل مرد ہوتے ہیں لیکن ان کی عادتیں، چال ڈھال اور بولنے کا انداز عورتوں کی طرح ہوتا ہے۔ جسمانی لحاظ سے یہ مکمل مرد ہوتے ہیں، باقاعدہ شادیاں کرتے اور بچے پیدا کرتے ہیں لیکن بہرحال وہ "زنانے" ہوتے ہیں۔ عام لوگ انھیں ہیجڑا سمجھتے ہیں لیکن یہ درحقیقت ہیجڑے نہیں ہوتے۔ میرے اپنے محلے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو شادی شدہ اور بال بچے دار ہیں لیکن وہ زنانے ہیں۔
اردو اور فارسی میں ایسے عورت نما مرد کو "زنخا" کہا جاتا ہے۔ لُغت کے مطابق زَنخا اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کی حرکات و سکنات عورتوں کی سی ہوتی ہیں۔مثنوی رومی میں ایک حکایت ایسے ہی ایک مرد "نصوح" کے بارے میں مشہور ہے۔ترکی کا ایک مشہور ڈراما "حریم سلطان" Muhteşem Yüzyılجو جیو کہانی پر "میرا سلطان" کے نام سےاردو ڈبنگ کے ساتھ آن ایئر ہوا تھا اس میں ایک ایسے عورت نما مرد کا کردار دکھایا گیا ہے جو زنان خانے کا محافظ تھا۔ انگریزی میں ایسے مرد کے لیے eunuch کا لفظ مستعمل ہے۔ اس کےعلاوہ effeminate person کا لفظ بھی اسی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
کچھ مرد "زنانے" کیسے اور کیوں بنتے ہیں؟
انہیں "زنانے" یا "مورتیں" اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ مرد ہونے کے باوجود بالکل عورتوں جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ یہ دیوانگی کی حد تک عورت بننے کے شوقین ہوتے ہیں۔ پاکستان یں عموما ان کے اہل خانہ ان کی شرمندہ کرنے والی حرکات سے تنگ آ جاتے ہیں، انھیں مارتے پیٹتے ہیں اور بالآخر اکثر کو گھروں سے نکال دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ گھروں سے نکل کر پریشان نہیں ہوتے بلکہ خوش ہوتے ہیں اور یوں اپنی جمعیت کے ساتھ جا ملتے ہیں۔ لاہور کے قریب قصور شہر میں ان ہر سال بہت مڑا اجتماع ہوتا ہے جہاں پورے ملک سے زنانے آتے ہیں اور اپنے مسائل کا اجتماعی حل تلاش کرتے ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ مکمل مرد ہونے کے باوجود یہ ہر وہ کام پسند کرتے ہیں جو عورتیں کرتی ہیں۔ یہ اپنے نام کو عورتوں کی طرز پر بگاڑ لیتے ہیں مثلا منیر نام کو "مینا" یا "منی"، شبیر کو :شبو" وغیرہ بنا لیتے ہیں۔ یہ اپنی داڑھی مونچھیں اکثر صفا چٹ رکھتے ہیں اور طرح طرح کے میک اپ کر کے اپنے آپ کو دلکش بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اگر سادہ مردوں والے کپڑوں میں ہوں تو ان کی پہچان یہ ہے کہ یہ عورتوں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ لچک لچک کر چلتے ہیں اور ہاتھ لہرا لہرا کر بات کرتے ہیں۔
نصوح ایک عورت نما آدمی
بعض مرد معاش کے لیے بھی زنانہ روپ دھارلیتے ہیں۔ہمارے ہاں گھروں سے فارغ ہونے والے زنانے عموما میلوں اور سرکس میں عورتوں والے کپڑے پہن کر ڈانس کا کام کرتے ہیں اور "موت کے کنویں" میں تماشائیوں کو فلمی گیتوں پر ناچ دکھا کر محظوظ کرتے ہیں۔ یہی ان کا سب سے بڑا پیشہ ہوتا ہے۔ مثنوی رومی میں ایک ایسے ہی عورت نما مرد کی حکایت موجود ہے۔ اس کا نام نصوح تھا معاش کی غرض سے عورت کا روپ دھار کر زنانہ حمام میں خواتین کا مساج وغیرہ کیا کرتا تھا۔لیکن بعد میں اس نے اس کام سے توبہ کی۔ ایسا نیک اور سخی بن گیا کہ ملک بھر میں اس کی پارسائی کے قصے عام ہوگئے۔تاریخ کی کتب میں نصوح کو بنی اسرائیل کے عابد کی حیثیت سے لکھا گیا ہے۔ اسی حکایت کی بنا پر اردو میں "توبۃ النصوح" کی ترکیب رائج ہے یعنی ایسی پکی توبہ کہ اس کے بعد گناہ گار واپس اس گناہ کی طرف کبھی نہیں پلٹتا۔ڈپٹی نذیر احمد کااس نام سے ایک ناول "توبۃ النصوح" بھی کافی شہرت حاصل کرچکا ہے۔
بہرحال ہم بات کررہے تھے کہ بعض مرد معاش اور کمانے کے لیے بھی عورت کا روپ دھارلیتے ہیں۔اس کے علاوہ وہ زنانے جنھیں گھروں سے فارغ نہیں کیا جاتا، وہ وعورتوں والے پیشے اپنا کر معاشرے میں رہتے ہیں مثلا ان کی اکثریت درزیوں والا کام کرتی ہے یا پھر سلائی کڑھائی وغیرہ کرتی ہے۔
ویب سیریز: مسز اینڈ مسٹر شمیم میں "زنانے" کردار کا قصہ کیا ہے؟
ہمارے ہاں کسی بھی سماجی ایشو خاص طور پر عورت سے متعلق مسائل کو حکمت عملی اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حل کرنے کے بجائے اس کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ جس کا فائدہ اکثر غیر ملکی این جی اوز اور فیمینزم یا آزادئ نسواں کی علمبردار نام نہاد تنظیمیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اس پر علماء اور سماج کا دردِ دل رکھنے والے زعما کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ میڈیا ایسے مسائل کو مثبت یا منفی دونوں طرح سے اجاگر کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ آج کل عورت نما مرد یعنی زنانے کے بارے میں بھی بحث جاری ہے۔ حال ہی میں بھارت کے ٹی وی چینل زی ٹی وی نے اس موضوع پر ایک ویب سیریز "مسز اینڈ مسٹر شمیم" ریلیز کی ہے۔ اس میں پاکستانی اداکار نعمان اعجاز ایک زنانے کا کردار (مسٹر شمیم) ادا کررہے ہیں۔ ان کے ساتھ صبا قمر(مسز شمیم) کلیدی کردار نبھا رہی ہیں۔ ویب سیریز کا رواج بڑھتا جارہا ہے۔ نسبتاً ویب سیریز میں بولڈ اور ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جاتا ہے جو نیشنل ٹی وی پر دکھانے میں تعامل سے کام لیا جاتا ہے۔ خیر یہ ویب سیریز کئی اعتبار سے توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس میں زنانے کردار کی حساسیت، جذبات اور سوشل لائف کے بارے میں ایک نئے اور سوچنے والے انداز میں دکھایا گیا ہے۔ یہ ویب سیریز زی ٹی وی نیٹ ورک کے پہلے آن لائن چینل زندگی ٹی وی پر آن ایئر کی جارہی ہے۔
زنانوں کی جمعیت
ہر شہر میں ان کے بڑے بڑے اڈے ہوتے ہیں جہاں یہ اکثر اکٹھے ہو کر اپنے معاملات ڈسکس کرتے ہیں۔ ہر شہر میں ان کا ایک سربراہ یا حاکم ہوتا ہے جسے یہ "گرو" کہہ کر پکارتے ہیں۔ گرو کا حکم ہر مورت یا زنانے کے لیے حرف آخر ہوتا ہے اور جو زنانہ گرو کی بات نہ مانے، اس کے ساتھ انتہائی سخت قسم کا سوشل بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ گرو کے ماتحت تمام زنانے "چیلے" کہلاتے ہیں۔
یہ اپنی جمعیت میں ایک خاص قسم کی زبان بولتے ہیں جو پورے برصغیر میں ان کی جمعیت میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ان کی زبان کے کچھ الفاظ اس طرح ہیں: چیسا (بمعنی خوبصورت)، بیلا (بدصورت)، ریشکا (بال)، پھمنی (داڑھی)، گریا (شوہر) وغیرہ۔
ان میں ایک انتہائی تکلیف دہ اور درد ناک بات پائی جاتی ہے جسے "نربان ہونا" کہتے ہیں۔ جو زنانہ حد سے زیادہ عورت بننے کا شوقین ہوتا ہے، وہ آپریشن کے ذریعے اپنا "عضو" کٹوا دیتا ہے۔ نربان ہونے کے بعد، ان کی داڑھی مونچھ کے بال خود بخود گر جاتے ہیں اور پھر یہ اپنے آپ کو مکمل عورت سمجھنے لگتے ہیں۔
ماہرین نفسیات کی رائے
ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ کچھ بچے جو زیادہ تر عورتوں کی صحبت میں رہتے ہیں، تو و ہ ان خواتین کی چال ڈھال ، رہن سہن اور بات کرنے کا انداز وغیرہ نقل کر لیتے ہیں اور اس طرح جب وہ جوان ہوتے ہیں تو ان میں نسوانیت کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ ایسے بچے اگر بدقسمتی سے زنانوں کی تنظیم کے ہاتھ لگ جائیں تو خود بخود دل و جان سے ان کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ ایسے بچے گھر سے باہر مردوں کے ماحول میں گھبراتے ہیں جبکہ مورتوں کے ماحول میں وہ راحت محسوس کرتے ہیں۔
ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
یاد رکھیے کہ کسی بھی سماجی ایشو یا مسئلے کو جب تک قبول نہ کیا جائے یا اس پر غور نہ کیا جائے تب تک اس کے لیے بہتری کے اقدامات کرنا ممکن نہیں۔ ہمیں اپنے رویوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے عورت نما مردوں کا مذاق اڑانے،ان کو ذلیل کرنے،سماج میں بے یارومددگار چھوڑدینے یا ان کو غیر مخلوق سمجھنے سے مسائل میں اضافہ ہوگا اور خرابے کا خدشہ بڑھے گا۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں، ان کی تربیت میں بیٹے اور بیٹی میں تفریق نہ پیدا کریں ۔ اگر لڑکوں میں عورتوں والی خصوصیات دیکھیں تو ان کو پیار اور توجہ سے سمجھانے کی کوشش کریں۔ سماج میں زنانے سمیت خواجہ سراؤں کی بہتری اور ان کو باعزت روزگار دینے کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی عملی اقدام کی ضرورت ہے۔