پاکستان کی دس مشہور اور تاریخی مساجد
اسلامی تہذیب میں مسجد کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ مسلمان جب بھی کسی نئے علاقے میں پہنچتے ہیں تو وہاں سب سے پہلے مسجد تعمیر کرتے ہیں۔ برصغیر کے مسلمان حکمرانوں نے بھی اپنے دور حکومت میں مساجد کی تعمیر پر خصوصی توجہ دی اور مختلف علاقوں میں نہایت عالی شان مساجد تعمیر کرائیں۔ یہ مساجد اپنی ساخت، ثقافت اورفن تعمیر کی وجہ سے بہت مشہور ہیں۔
ذیل میں ہم پاکستان کی چند مشہور اورتاریخی مساجد کا تعارف پیش کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: لاہور میں ایک سو دس سال پہلے کیا ہوا تھا؟
1۔فیصل مسجد اسلام آباد
یہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں واقع ہے۔ فیصل مسجد جنوبی ایشیا کی دوسری بڑی مسجد اور دنیا کی چوتھی بڑی مسجد ہے۔۔ اسے ترکی کے ماہر تعمیرات ویدات دلوکے نے ڈیزائن کیا تھا اور اپنے ڈیزائن کے اعتبار سے یہ مسجد صحرائی بدوؤں کے خیمے کا منظر پیش کرتی ہے۔
اس کی تعمیر 1986 میں مکمل ہوئی۔ اسے پاکستان کی قومی مسجد کے طور پر ڈیزائن کیا گیا تھا اور اسے عرب دنیا کے مرحوم بادشاہ فیصل بن عبدالعزیز کے نام سے منسوب کیا گیا تھا جنھوں نے اس کی تعمیر کے لیے بھرپور مالی معاونت کی تھی۔ روایتی مساجد کے ڈیزائن کے برعکس، اس کا کوئی گنبد نہیں ہے۔ مینار ترکی کے روایتی ڈیزائن، پتلے اور پنسل کی شکل کے بنے ہوئے ہیں۔ مرکزی خیمے کی شکل والے ہال کی دیواروں پر پیچیدہ خطاطی کے ساتھ درمیان میں ایک عظیم الشان ترکی فانوس لٹکا ہوا ہے۔ اس مشہور مسجد کا اندرونی حصہ بھی اتنا ہی شاندار ہے۔ فیصل مسجد مارگلہ کی پہاڑیوں کے دلکش پس منظر میں واقع ہے۔
2۔بادشاہی مسجد لاہور
بادشاہی مسجد لاہور، پاکستان کی سب سے مشہور اور شاندار مسجد ہے۔ یہ مغلیہ دور کی متعدد مساجد میں سے ایک ہے۔ مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے ہندوستان کے پانچویں مغل شہنشاہ کی حیثیت سے اپنے دور حکومت میں بادشاہی مسجد تعمیر کی۔ اس مسجد کو پاکستان میں مغل فن تعمیر کا ایک غیر معمولی نمونہ سمجھا جاتا ہے۔بادشاہی مسجد کا فن تعمیر سادہ مگر شاندار ہے۔ مسجد کا ڈیزائن مظفر حسین (فدائی خان کوکا) نےتیار کیا ، جو اس وقت لاہور کے گورنر اور اورنگزیب کے بہنوئی بھی تھے۔
بادشاہی مسجد کی تعمیر کا آغاز 1670 میں ہوا۔ اسے مکمل ہونے میں آٹھ سال لگے۔ مسجد کے چاروں طرف بڑی دیواریں 25 فٹ تک موٹی ہیں۔اس کے چار مینار ہیں اور مرکزی دروازے پر تین بڑے گنبدوں کے علاوہ 22 گنبد ہیں۔ اس کا صحن 276,000 مربع فٹ پر پھیلا ہوا ہے، اس میں ایک لاکھ نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے مینار 196 فٹ اونچے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے : بابری مسجد کا غم
بادشاہی مسجد کو برطانوی دور حکومت میں کچھ بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا۔ تاہم، 1960 کی دہائی میں اسے اپنی سابقہ شان میں بحال کر دیا گیا۔ مسجد کے احاطے میں وسیع باغات، چشمے، حضوری باغ ، ڈاکٹر علامہ اقبال کا مقبرہ، برطانوی دور کا روشنائی گیٹ اور مسجد کی بحالی میں معاونت کرنے والے سر سکندر حیات خان کا مقبرہ اور ایک چھوٹی سی عمارت ہے جس میں مقدس اسلامی آثار کی نمائش ہوتی ہے۔
یہ پاکستان کی تیسری سب سے بڑی مسجد جبکہ دنیا کی چھٹی بڑی مسجدہے۔ یہ مغل دور کی خوبصورتی اور شان و شوکت کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، یہ لاہور کا سب سے مشہور تاریخی اور اہم سیاحتی مقام بھی ہے۔ اس وقت اس کا انتظام محکمہ اوقاف کے پاس ہے جس نے مسجد کی انتظامی کمیٹی کو نگران کا کام سونپا ہے۔1981 میں یونیسکو نے اسے " عالمی ثقافتی ورثے" کے طور پر رجسٹر کر لیا تھا۔
3۔وزیر خان مسجد لاہور
لاہور میں واقع مسجد وزیر خان اپنے وسیع و عریض ٹائل کے کام کے لیے مشہور ہے۔ اسے"لاہور کے گال پر تل" قرار دیا گیا ہے۔ یہ مغل شہنشاہ شاہجہان کے دور حکومت میں 1634 عیسوی کے لگ بھگ سات سالوں میں تعمیر کی گئی تھی ۔
اسے چنیوٹ کے رہنے والے حکیم شیخ علم الدین انصاری نے بنایا تھا، جو شاہ جہاں کے درباری معالج اور لاہور کے گورنر بنے۔ وہ عام طور پر وزیر خان کے نام سے معروف تھے اس لیے ان کے نام پر مسجد کا نام "وزیر خان مسجد" رکھا گیا۔مسجد کی ممتاز تعمیراتی خصوصیت اس کے چاروں کونوں میں میناروں کا استعمال ہے۔ لاہور میں پہلی بار ایسا ڈیزائن استعمال کیا گیا تھا۔ مسجد کا زیادہ تر حصہ کٹی ہوئی اینٹوں سے بنا ہوا ہے جسے چمکدار ٹائل موزیک سے سجایا گیا ہے۔
4۔گرینڈ جامع مسجد لاہور
گرینڈ جامع مسجد بحریہ ٹاؤن لاہور، پوری اسلامی دنیا میں پاکستان کی شناخت ہے۔ یہ فن تعمیر کا ایک شاہکار منصوبہ ہےجو پاکستانی ثقافت کے ساتھ ساتھ روایتی اسلامی فن تعمیر کے امتزاج کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کا مرکزی ڈھانچہ چار میناروں پر مشتمل ہے جن میں سے ہر ایک کی اونچائی 165 فٹ ہے ۔ مرکز میں ایک عظیم الشان گنبد ہے جو 20 چھوٹے گنبدوں میں گھرا ہوا ہے۔ اس شاہکار کی سب سے دلچسپ خصوصیت یہ ہے کہ بیرونی حصے میں 2.5 انچ کی 40 لاکھ ہاتھ سے بنی ملتانی ٹائلیں لگائی گئی ۔صرف ان ٹائلوں کو لگانے میں 4 سال کا عرصہ صرف ہوا۔
مسجد کا بیرونی حصہ، اگرچہ منفرد ہےتاہم یہ لاہور کی بادشاہی مسجد سے متاثر دکھائی دیتا ہے۔ اسلامی فن تعمیر کے اس شاندار نمونےکے مرکزی ہال اور ملحقہ صحن میں تقریباً 1 لاکھ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے اس طرح اسے پاکستان کی سب سے بڑی مسجد قرار دیا گیا ہے۔ خواتین کے لیے نماز کے لیے مخصوص جگہیں، ایک اسکول اور ایک اسلامی آرٹ گیلری ہے۔
لاہور میں مقیم مشہور ماہر تعمیرات نیئر علی دادا اینڈ ایسوسی ایٹس نے خوبصورت جامع مسجد کا ڈیزائن تیار کیا۔ مزید برآں، ترکی کے خوبصورت قالین، شاندارایرانی فانوس اور کئی غیر معمولی فن پارے مسجد کے اندرونی حصے کو مزین کرتے ہیں۔ گرینڈ جامعہ کا افتتاح 2014 میں ہوا تھا۔
5۔طوبیٰ مسجد کراچی
طوبیٰ مسجد کراچی میں واقع ہے اور مقامی طور پر گول مسجد کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ 1969 میں تعمیر کی گئی تھی اور کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی واحد گنبدوالی مسجد ہےجس کے مرکزی ہال میں کوئی ستون نہیں ہے ۔ مسجد خالص سفید سنگ مرمر سے بنی ہے۔ گنبد کا قطر 72 میٹر (236 فٹ) ہے اور یہ مرکزی ستون کے بغیر ایک چھوٹی بند دیوار پر ٹکا ہوا ہے۔
اس میں صرف ایک مینار ہے جو 120 فٹ بلند ہے یہ مسجد دنیا کی اٹھارویں سب سے بڑی مسجد ہے اور مرکزی اجتماع گاہ میں 5000 افراد بیٹھ سکتے ہیں۔ اسے،پاکستانی ماہر تعمیرات ڈاکٹر بابر حامد چوہان اور انجینئر ظہیر حیدر نقوی نے ڈیزائن کیا ہے۔
6۔بھونگ مسجد رحیم یار خان
بھونگ مسجد تحصیل صادق آباد ضلع رحیم یار خان میں واقع ہے۔ اس کی تعمیر تقریباً 50 سال (1932-1982) تک جاری رہی۔ اس کے ڈیزائن کو 1986 میں آغا خان آرکیٹیکچر پرائز اور 2004 میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ یہ مسجد اپنے شاندار ڈیزائن اور آرکیٹیکچرل خوبصورتی کے لیے مشہور ہے۔ پیچیدہ آرائشی نمونوں اور خوبصورت خطاطی میں یہ اپنی مثال آپ ہے۔
مرحوم رئیس غازی محمد، ایک بڑی جاگیر کے مالک، نے اس منصوبے کو 1932 میں بھونگ گاؤں میں شروع کیا، جو کہ ان کی وسیع جائیداد پر بکھرے ہوئے دیہاتوں میں سب سے اہم تھا۔ مسجد ان کے محل کے احاطے کی سب سے شاندار عمارت تھی جس میں ایک چھوٹی مسجد، ایک مدرسہ اور طلباء کے لیے کمرے بھی شامل تھے۔ پورے پاکستان اور ہندوستان سے اکٹھےکئے ہوئے ماہرین نے تقریباً 50 سال کے عرصے میں اس کی تعمیر مکمل کی۔
7۔شاہ جہاں مسجد (ٹھٹھہ، سندھ)
پاکستان کی مشہور مساجد میں ایک شاہ جہاں مسجد ہےجو ٹھٹھہ(صوبہ سندھ) میں واقع ہے۔ یہ مسجد 1647 میں مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دور حکومت میں سندھیوں کی مہمان نوازی کے تحفے کے طور پر تعمیر کی گئی تھی۔ مزید برآں، اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والی بھاری سرخ اینٹیں اور نیلی چمکیلی ٹائلیں اپنی نوعیت کی منفرد ٹائیلیں ہیں ۔ مسجد کے 93 گنبد ہیں۔
اس کی تعمیر کی ایک قابل ذکر خصوصیت یہ ہے کہ مرکزی محراب کے سامنے بلند آواز سے بولنے والے کی آواز پوری عمارت میں واضح طور پر سنی جا سکتی ہے۔اس عظیم الشان مسجد میں ایک وقت میں 20 ہزار نماز ادا کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے : سندھ کی تاریخ کا گم گشتہ باب
8۔مسجد مہابت خان پشاور
مسجد مہابت خان پشاور(خیبر پختونخواہ) ،پاکستان میں 17ویں صدی کی ایک عالی شان مسجد ہے۔ یہ پشاور کی سب سے بڑی مسجدہے جو پشاور کے پرانے شہر میں واقع ہے جسے "اندر شہر" (اندرونی شہر) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا نام پشاور کے مغل گورنر نواب مہابت خان کے نام پر رکھا گیا ہے جنہوں نے شہنشاہ شاہ جہاں اور اورنگزیب کے دور میں خدمات انجام دیں اور جو نواب دادن خان (جو لاہور کے گورنر رہ چکے تھے) کے پوتے تھے۔
یہ مسجد بھی مغل فن تعمیر کا شاہکار ہے ۔ اس کا ایک تنگ لیکن بڑا داخلی دروازہ ہے جو ایک بڑے صحن کی طرف جاتا ہے۔ صحن کے وسط میں ایک ٹھنڈا نیلے ٹائلوں والا وضو کا تالاب ہے جس کے دونوں طرف کمروں کی قطار ہے اور مغرب کی طرف ایک مرکزی نماز خانہ ہے۔ مرکزی ہال کو اندر سے پھولوں کے کام اور خطاطی سے سجایا گیا ہے۔ کی دہائی میں تعمیر کی گئی مہابت خان مسجد میں ایک بہت بڑا عبادت گاہ ہے جس میں پانچ محراب والے داخلی راستے تین گنبدوں سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ مرکزی ہال کے اوپر چھ چھوٹے آرائشی مینار بنائے گئے تھے جن کے ڈھانچے کے ساتھ دو اونچے مینار تھے۔ مسجد کی چھت کو دلکش پھولوں اور جیومیٹرک نقشوں سے سجایا گیا ہے۔ دریں اثنا، مسجد کا بیرونی حصہ خوبصورت سفید سنگ مرمر سے بنا ہے۔اس مسجد اور اس سے ملحقہ صحن میں ایک وقت میں تقریباً 14 ہزار لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔
9۔ علی مسجد،خیبر پاس
علی مسجد خیبر پختون خوا میں لنڈی کوتل کے قریب درہ خیبر کے سب سے اونچے سرے پر واقع ہے جس کی بلندی 3,174 فٹ ہے۔ مقامی روایت کے مطابق یہاں پر حضرت علیؓ کی یاد میں ایک مسجد اور مزار تعمیر کیا گیا ہے۔ یہاں ایک بہت بڑی چٹان بھی ہے جس پر ہاتھ کے نشانات ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ حضرت علیؓ کے ہیں۔
10۔ عید گاہ مسجد ، ملتان
ملتان کی یہ عظیم الشان اور تاریخی مسجد 1735 میں نواب عبدالصمد خان نے اس وقت تعمیر کروائی جب وہ ملتان میں مغل گورنر کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے تھے۔
یہ ایک وسیع صحن کی حامل ہے جبکہ مرکزی عمارت 250 فٹ چوڑی ہے اور چھوٹے بڑےسات گنبدوں پر مشتمل ہے۔ اس کی بیرونی آرائش چمکدار نیلی ٹائلوں سے مزین ہے جبکہ اندرونی حصے میں خوبصورت نقاشی کی گئی ہے۔