قیام پاکستان کی تاریخ: 1906 تا 1947 تک قیامِ پاکستان کی جمہوری جدوجہد
قیامِ پاکستان تاریخ کی ایسی سیاسی تحریک ہے جو پرُامن اور جمہوری طریقے سے کامیابی سے ہم کنار ہوئی۔ پاکستان کے قیام کی کہانی 1906 سے شروع ہوتی ہے جب آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔یہ واحد جماعت تھی جس نے حقیقی معنوں میں برصغیر کے مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے پاکستان کا خواب شرمندہء تعبیر کیا۔
ہم یہاں 1906 سے 1947 تک قیام پاکستان کی جمہوری جدوجہد کا سال بہ سال سفر بیان کررہے ہیں۔ یاد رکھیے کہ جو قومی اپنے ماضی کو یاد نہیں رکھتی اس کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔
تصاویر/پوسٹرز کے لیے پاکستان ریڈیو کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
1906: آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام
ڈھاکہ سے نواب سلیم الدین نے "مسلم آل انڈیا کنفیڈریسی" کا تصور پیش کیا۔اس کا بنیادی مقصد برصغیر کے مسلمانوں کو ایک سیاسی پلیٹ فارم مہیا کرنا اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ "آل انڈیا مسلم لیگ" کا قیام 30 دسمبر 1906 کو عمل میں آیا۔ مسلم لیگ کے پہلے صدر سر آغا خان منتخب ہوئے۔
1909 مورلے-منٹو اصلاحات
برطانوی پارلیمنٹ نے "انڈین کونسلز ایکٹ 1909" منظور کیا جسے مورلے-منٹو اصلاحات بھی کہتے ہیں۔ اس قانون کے تحت پہلی بار ہندوستانی دستور ساز اسمبلی یا کونسلز میں مسلمانوں کے لیے الگ انتخابی کوٹے کا حق تسلیم کیا گیا۔
1913:قائد اعظم کی مسلم لیگ میں شمولیت
قائد اعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ میں 1913 شمولیت میں اختیار کی۔
1916:میثاق لکنھو
قائد اعظم کی قیادت میں میثاق لکھنؤ کی منظوری: قائد اعظم کی کاوشوں سے 1916 میں آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس کے درمیان باہمی اتحاد کے لیے "میثاقِ لکھنؤ" پر اتفاق ہوا۔اس معاہدے کو مسلم ہندو اتحاد کے طور پر پیش کیا گیا۔
1919 تا 1922: تحریک خلافت
1919 سے 1922 تک ہندوستان میں جنگِ عظیم دوم کے بعد برطانوی حکومت کی حجاز سے متعلق وعدہ خلافی کے احتجاج میں "تحریکِ خلافت" چلائی گئی۔ یہ تحریک قیامِ پاکستان اور برطانوی راج سے مکمل آزادی کے مطالبے نے زور پکڑا۔
1927: تجاویزِ دہلی
تحریک خلافت کے بعد قائد اعظم نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے 20 مارچ 1927 کو مسلم لیگ ایک اجلاس میں ایک فارمولا پیش کیا جسے "تجاویزِ دہلی" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
1928: نہرو رپورٹ
1928 نے جواہر لال نہرو نے تجاویزِ دہلی کو نہ صرف مسترد کردیا بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کے مسلمانوں کے الگ انتخابی حق کی بھی مخالفت کی۔
1929: قائد اعظم کے چودہ نکات
نہرو رپورٹ کے چند ماہ بعد قائد اعظم نے برصغیر کے مسلمانوں کی بھرپور نمائندگی کرتے ہوئے چودہ نکات پیش کیے۔تحریک پاکستان میں ان چودہ نکات نے مسلمانوں کے الگ وطن کے مطالبے کو مزید مضبوط کردیا۔
1930 تا 1931: تین گول میز کانفرنسیں
حکومتِ برطانیہ اور برصغیر پاک و ہند کے راہنماؤں کے درمیان 1930 تا 1932 کے درمیان تین گول میز کانفرنسوں کا انعقاد ہوا۔ان کانفرنسوں کا مقصد ہندوستان میں آئینی اصلاحات پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔
1930: الٰہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس
1930 میں علامہ محمد اقبال نے الٰہ آباد میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں پہلی بار کھل کر برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا تصور پیش کیا۔اس لیے ان کو مصورِ پاکستان کہا جاتا ہے۔
1935: قانونِ ہند مجریہ 1935 کی منظوری
گول میز کانفرنس کی ناکامی کے بعد برطانوی پارلیمنٹ میں ہندوستان میں حکومتی معاملات چلانے کے لیے 4 اگست 1935 کو نیا آئین منظور کیا جو" گورنمٹ آف انڈیا ایکٹ 1935" (قانون ہند مجریہ 1935" کہلاتا ہے۔
1937:ہندوستان میں صوبائی انتخابات
قانون ہند مجریہ 1935 کے دو حصے تھے: ایک وفاقی حصہ اور دوسرا صوبائی حصہ۔وفاقی حصے کو مسلم لیگ اور کانگریس دونوں نے مسترد کردیا جبکہ صوبائی حصے کو دونوں جماعتوں نے تسلیم کرلیا۔ اس تحت 1937 میں ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں انتخابات ہوئے۔گیارہ میں سے سات صوبوں میں کانگریس برسراقتدا آئی۔اس وقت جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ ہندوستان میں صرف دو قوتیں ہیں؛ایک انگریز سرکار اور دوسری آل انڈیا نیشنل کانگریس۔ اس کے ردعمل میں قائد اعظم نے نہرو کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ برصغیر میں ایک تیسری قوت بھی ہے وہ ہے مسلمان۔
1939: یوم نجات
1937 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد کانگریس کی مسلمدشمنی کھل کر سامنے آئی۔ مسلمانوں کے خلاف اقدامات کیے گئے۔
جب کانگریس حکومت نے 21 دسمبر 1939 کو استعفیٰ دے دیا تو 22 دسمبر 1939 کو مسلمانوں نے "یومِ نجات" کے طور پر منایا۔
1940: قرار داد پاکستان منظور
قیام پاکستان کی تحریک عروج پر تھی، آل انڈیا مسلم لیگ کے 27واں سالانہ اجلاس منٹو پارک (علامہ اقبال پارک/یادگار لاہور) میں منعقد ہوا۔ 23 مارچ 1940 کو "قراردادِلاہور" متفقہ طور بھی منظورکی گئی۔اس قرار کے تحت بنگال،آسام،پنجاب،سندھ اور سرحد (خیبرپختونخوا) کو علاحدہ کرکے پاکستان کے نام سے الگ وطن کا قیام عمل میں لایا جائے۔ یہ قرار داد بعد میں قراردادِ پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔
1945:انڈین سنٹرل اسمبلی کے انتخابات
1945 میں انڈین سنٹرل اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اس انتخابات میں اسمبلی میں 30 نشستیں مسلمانوں کے لیے مختص تھیں۔ یہ تمام نشستیں آل انڈیا مسلم لیگ کے امیدواروں نے جیت لیں۔
قائد اعظم نے برطانوی صحافی نورمن کلف کو دیے گئے انٹرویو میں واضح طور پر اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان کے معاملے میں ہم کسی بھی طور پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
1946: یومِ راست اقدام
تحریک پاکستان اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی۔ 16 اگست 1946 کو قائد اعظم کی اپیل پر ہندوستان بھر میں "یوم راست اقدام" منایا گیا۔ملک بھر میں برطانوی حکومت اور کانگریس کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔
لے کے رہیں گے پاکستان
بٹ کے رہے گا ہندوستان
1947: ماؤنٹ بیٹن منصوبہ(منصوبہ آزادیٔ ہند)
مسلم اور ہندو راہنماؤں بشمول قائداعظم، نہرو اور گاندھی کی موجودگی میں 3 جون 1947 کو برطانوی وزیراعظم لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے "منصوبہء آزادی" کی باقاعدہ منظوری دی جسے "ماؤنٹ بیٹن منصوبہ" بھی کہا جاتا ہے۔
1947: مجلس تقسیمِ ہند (پارٹیشن کونسل)
ماؤنٹ بیٹن منصوبے پر عمل درآمد کے لیے ماؤنٹ بیٹن کی صدارت میں "مجلس تقسیمِ ہند" (پارٹیشن کونسل) قائم کی گئی۔اس کونسل کے ارکان میں قائد اعظم محمد علی جناح،نواب زادہ لیاقت علی خان، جواہر لال نہرو اور ولبھ بھائی پٹیل شامل تھے۔
1947: قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے صدر منتخب
10 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا۔ 11 اگست 1947 کے اجلاس میں قائد اعظم محمد علی جناح کو پارلیمنٹ کا پہلا صدر (قائدِ ایوان) منتخب کیا گیا۔
13 اگست 1947: پاکستان کی آزادی کا اعلان
13 اگست 1947 کو پاکستان ریڈیو سے پاکستان کے قیام کا باقاعدہ اعلان ہوا۔یہ آواز مصطفیٰ حمدانی کی تھی۔
السلام علیکم! پاکستان براڈکاسٹنگ سروس،ہم لاہور سے بول رہے ہیں۔
13 اور 14 اگست سن 47 عیسوی (1947) کی درمیانی رات 12 بجے
طلوع صبح آزادی
پاکستان زندہ باد
پاکستان پائندہ باد