پاکستان کے نمایاں چند ڈیم
ڈیم،تفریح، سیلاب پر قابو پانے، پانی کی فراہمی، بجلی پیدا کرنے، آلودگی پر قابو پانے اور جنگلی حیات کی رہائش فراہم کرنے میں خاصے مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ ان فوائد کے پیش نظر، پاکستان کی متعدد حکومتیں ان کی تعمیر کے لیے، کم وسائل کے باوجود کمر بستہ رہی ہیں اور رہیں گی ۔ انٹرنیشنل کمیشن آن لارج ڈیمز کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 150 ڈیم اور دیگر آبی ذخائر ہیں۔ پاکستان دنیا کے دو بڑے ڈیم ، تربیلا اور میرانی ڈیم رکھتا ہے۔ تربیلا حجم کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا اور مٹی سے بنا سب سے بڑا ڈیم ہے۔ میرانی ڈیم سیلاب سے بچاؤ کے سلسلے میں حجم کی بنیاد پر سب سے بڑا ڈیم ہے۔ آئیے اب ہم پاکستان کے تمام مشہور ڈیموں پر طائرانہ نظر دوڑاتے ہیں۔
دیامر بھاشا ڈیم
دیامر بھاشا ڈیم کنکریٹ سے بھرا ڈیم ہے جو گلگت بلتستان سے گزرتے دریائے سندھ پر واقع ہے۔ یہ ابھی تعمیر کے مراحل میں ہے۔ دیامر بھاشا کا نام گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے علاقے بھاشا پر مبنی ہے۔
ایک بار مکمل ہونے کے بعد دیامر بھاشا ڈیم 4500 میگاواٹ آبی بجلی پیدا کرنے کے لیے تیار ہوگا۔ اس کے ساتھ یہ ڈیم 8,500,000 ایکڑ فٹ اضافی پانی ذخیرہ کرنے کے قابل ہو گا جو ملک کی پینے اور آب پاشی کی ضروریات کے لیے استعمال ہو سکے گا۔ اس کے علاوہ، اس ڈیم میں اتنی طاقت ہوگی کہ وہ دریائے سندھ میں طغیانی کے دوران سیلاب سے ہونے والے نقصانات کو کنٹرول کر سکے گا۔
اکتوبر 2011 میں اس وقت کے پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ تکمیل کے بعد، دیامر بھاشا ڈیم دنیا کا سب سے اونچا آر سی سی (رولر کمپیکٹڈ کنکریٹ) ڈیم ہوگا۔
گومل زام ڈیم
گومل زام ڈیم مختلف ضروریات کے لیے استعمال ہونے والا ڈیم ہے۔ یہ سابقہ فاٹا کی جنوبی وزیرستان ایجنسی میں دریائے گومل کے پانی پر واقع ہے۔ تاہم، گومل زام ڈیم کا بنیادی مقصد بجلی ، آبپاشی، اور سیلاب کی روک تھام ہے۔ ڈیم کی تعمیر کا عمل اگست 2001 میں شروع ہوا اور دس سال کی کوششوں کے بعد اپریل 2011 میں مکمل ہوا۔ ڈیم کے پاور ہاؤس یونٹ مارچ 2013 میں ختم ہوئے ۔
اگرچہ اس ڈیم کو بنانے کا حکومت کا منصوبہ 1963 میں تھا ، حکومت کی جانب سے اس کی تعمیر کی منظوری بھی دی گئی اور ابتدائی کام بھی ہوا۔ لیکن، 1965 پاک بھارت جنگ کی وجہ سے ڈیم کی تعمیر کو روکنا پڑا۔ بعد ازاں جنرل پرویز مشرف، صدر پاکستان نے 2001 میں ڈیم کی تعمیر کے لیے حکم جاری کیا۔ صدر مشرف سے اجازت کا پروانہ ملنے کے بعد، 14 اگست 2001 کو تعمیر کی تقریب کا اہتمام ہوا۔
گومل زام ڈیم اپنی 133 میٹر گہرائی کے ساتھ، ایک آر سی سی (رولر کمپیکٹڈ کنکریٹ) گریویٹی ڈیم ہے اور 17.4 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
حب ڈیم
حب دریا پر واقع حب ڈیم پانی کا اہم ذخیرہ ہے۔ یہ ڈیم بلوچستان اور سندھ کی سرحد پر واقع ہے۔ کراچی سے تقریباً 56 کلومیٹر دور لسبیلہ اور کراچی کے اضلاع تک اس کی حدود پھیلی ہوئی ہیں۔ اپنی 85700 ایکڑ فٹ کی مجموعی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کے ساتھ، یہ کراچی شہر کے لوگوں کے لیے پینے کے پانی کا اہم ذریعہ ہے۔ ۔ اس ڈیم کو پاکستان کا تیسرا سب سے بڑا ڈیم سمجھا جاتا ہے۔
ڈیم کے آس پاس کے علاقے کو سندھ حکومت نے 1974 میں جنگلی حیات کی پناہ گاہ قرار دے دیا تھا۔ یہ کراچی کے لوگوں کے لیے ایک مشہور سیاحتی مقام بن گیا ہے، کیونکہ وہ ویک اینڈ پر فیملی یا دوستوں کے ساتھ پکنک اور مچھلی سے لطف اندوز ہونے کے لیے اس جگہ پر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیاحوں کے لیے واپڈا کا ایک ریسٹ ہاؤس بھی موجود ہے۔
منگلا ڈیم
منگلا ڈیم کو پاکستان کا دوسرا بڑا پانی کا ذخیرہ شمار کیا جاتا ہے۔ یہ 147 میٹر اونچا اور 3140 میٹر لمبا ہے۔ یہ آزاد کشمیر کے ضلع میرپور میں واقع ہے۔
ڈیم کی تعمیر کا عمل 1961 میں شروع ہوا اور 1967 میں ختم ہوا۔ یہ ڈیم وطن عزیز میں آب پاشی کا ایک اہم ذریعہ بن گیاہے۔ ابتدائی طور پر، ڈیم پانی ذخیرہ کرنے کے لئے بنایا گیا تھا لیکن بعد میں آبی بجلی پیدا کرنے کے لئے تبدیلیوں سے گزرا۔ اب یہ دنیا کا نواں سب سے بڑا ڈیم ہے۔
یہ ڈیم اپنے درج شدہ فوائد کے ساتھ ساتھ ایک اہم سیاحی و تفریحی جگہ بھی بن چکا ہے۔ کیونکہ، اس کے نتیجے میں منگلا جھیل بن گئی ہے۔ جھیل بہت سے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور اس کے ارد گرد پانی کے کھیلوں کی بہت سی سرگرمیوں کا مرکز بن گئی ہے۔ ، جن میں کشتی رانی، رافٹنگ، جیٹ اسکیئنگ، اور ماہی گیری کے ساتھ ساتھ جھیل کے قریب پارک میں پکنک منانا شامل ہے۔
میرانی ڈیم
میرانی ڈیم سیلاب سے بچاؤ کے لیے حجم کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے 302,000 ایکڑ فٹ کے ذخائر کو کیچ اور دریائے نیہنگ بھرتے ہیں۔ ڈیم کی تعمیر 2002 میں شروع ہوئی اور جولائی 2006 تک مکمل ہوئی۔ یہ بلوچستان میں دریائے دشت پر واقع ہے۔میرانی ڈیم کی اونچائی 39 میٹر اور لمبائی 1,020 میٹر ہے۔ اس ڈیم کو بنانے پر تقریباً 5267.90 ملین پاکستانی روپے خرچ ہوئے۔
نمل ڈیم
نمل ڈیم میانوالی میں وادی نمل کے ایک کراسنگ پر واقع ہے۔ یہ ڈیم پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے 1913 میں بنایا گیا تھا۔ چونکہ نمل جھیل کا رقبہ 5.5 مربع کلومیٹر ہے، یہ خطہ ارضی میدانوں کے ساتھ ساتھ پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔
ڈیم بنانے کا واحد مقصد مقامی کھیتوں کو آبپاشی کا ذریعہ فراہم کرنا تھا لیکن اب یہ علاقے کے لوگوں کے لیے ایک مشہور تفریحی مقام بھی بن چکا ہے۔ ہجرت کرنے والے پرندے اس علاقے میں آتے ہیں۔ یہ پرندے دیکھنے والوں کو ڈیم کی طرف کھینچتے ہیں، جبکہ کشتی رانی کے شوقین بھی یہاں کی ندیوں سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ نمل ڈیم کی وجہ سے بننے والی نمل جھیل کو ان چار مقامات میں شمار کیا گیا ہے ، جنہیں خاص چھٹیوں کے لیے سیاحتی مقام کے طور پر تیار کیا جائے گا۔ یہ قدم، اس خطے میں زیادہ سیاحوں کو راغب کرے گا۔
راول ڈیم
راول ڈیم 1962 سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہروں کو پانی فراہم کرتا آ رہا ہے۔ یہ دریائے کورنگ اور دیگر چھوٹی ندیوں سے پانی جمع کرتا ہے جو مارگلہ کی پہاڑیوں سے نیچے بہتی ہیں۔
راول جھیل مارگلہ پہاڑیوں کے ساتھ ایک مشہور سیاحتی مقام ہے، جھیل کے ارد گرد گھنے درختوں، راستوں اور پکنک پوائنٹس کے ساتھ ایک خوبصورت پارک ہے۔ پارک کا سب سے اونچا مقام راول جھیل، مارگلہ کی پہاڑیوں اور اسلام آباد اور راولپنڈی کے جڑواں شہروں کا شاندار نظارہ بھی پیش کرتا ہے۔
تیراکی، کشتی رانی، غوطہ خوری اور واٹر سکیٹنگ کچھ ایسی سرگرمیاں ہیں جو یہاں پرائیویٹ ٹورز کے ذریعے منعقد کی جا سکتی ہیں۔ اس علاقے میں بہت سے مختلف قسم کے پرندے، ممالیہ اور رینگنے والے جانور بھی رہتے ہیں، اور پرندے دیکھنے والے اکثر خوبصورت مقامی پرندوں کو دیکھنے کے لیے راول ڈیم پر جمع ہوتے ہیں۔ یہ جھیل ماہی گیری کی جگہ بھی اہم جگہ ہے، کیونکہ اس کے پانیوں میں تقریباً 15 مختلف انواع کی آبی حیات موجود ہے۔
تربیلا ڈیم
تربیلا ڈیم پاکستان کا سب سے بڑا ڈیم ہے۔ یہ ڈیم ضلع ہری پور کے چھوٹے سے قصبے تربیلا میں دریائے سندھ پر واقع ہے۔ ساختی حجم کے لحاظ سے یہ زمین پر دوسرا سب سے بڑا ڈیم ہے۔
اس ڈیم کی تعمیر 1968 میں شروع ہوئی تھی اور 1976 میں 1,497 ملین ڈالر کی لاگت سے مکمل ہوئی تھی۔ مزید یہ کہ اس کی اونچائی 143.26 میٹر یا 470 فٹ اور لمبائی 2,743.2 میٹر یا 9,000 فٹ ہے۔
وارسک ڈیم
وارسک ڈیم یقیناً پاکستان کے مشہور ڈیموں کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ ڈیم خیبر پختونخواہ کے پشاور کے شمال مغرب میں دریائے کابل پر واقع ہے۔ وارسک ڈیم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ 243 میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ یہ تکمیل کے دو بڑے مراحل سے گزر چکا ہے۔ پہلا مرحلہ 1960 میں مکمل ہوا تھا جبکہ دوسرا مرحلہ 1980 سے 1981 تک تھا۔
وارسک ڈیم کی کل اونچائی 76.2 میٹر ہے اور اس کی لمبائی 140.2 میٹر ہے۔ پیداوار پر کل لاگت 156 ملین روپے تھی۔
نیلم جہلم ڈیم
اس ڈیم کو خاص طور پر دریائے نیلم سے دریائے جہلم پر بجلی گھر کی طرف پانی کی سمت کو کنٹرول کرنے اور تبدیل کرنے کے لیے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر کے ابتدائی مراحل جولائی 2007 میں چینی کمپنی کو ڈیم کی تعمیر کا ٹھیکہ ملنے کے بعد شروع کیے گئے اور پلانٹ پر 2008 میں کام کا آغاز ہوا۔ تاہم، پروجیکٹ کئی سالوں تک ٹال مٹول اور سست روی کا شکار رہا اور بالآخر اپریل 2018 میں پہلا جنریٹر کام کرنے لگا۔
پاکستان کے آزاد جموں و کشمیر میں واقع یہ پاور پلانٹ مظفر آباد سے تقریباً 26 میل (42 کلومیٹر) جنوب میں موجود ہے۔ یہ 969 میگاواٹ کی آبی بجلی پیدا کر سکتا ہے۔