پاکستان کے 75 سال: پاکستان کے ایٹمی سائنس دانوں کی جدوجہد کی کہانی
28 مئی 1998ء کو پاکستان کے ایٹمی سائنسدانوں نے چاغی کے پہاڑوں میں کامیاب ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کی طرف سے کئے گئے ایٹمی دھماکوں کا بھرپور جواب دیا۔ ان ایٹمی دھماکوں کے پیچھے پاکستان کے سینکڑوں ایٹمی سائنس دانوں کی چالیس سال کی انتھک محنت شامل تھی۔ ان عظیم سائنسدانوں نے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں انتہائی محدد وسائل اور بیرونی دبائو کے باوجود جس طرح اس ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا، اس پر پوری قوم ان کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ ذیل میں ہم پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے چند نامور سائنسدانوں کا مختصر تعارف پیش کرتے ہیں تاکہ نوجوان نسل قوم کے ان عظیم سائنسدانوں سے روشناس ہو سکے۔
پروفیسر ڈاکٹر رفیع محمد چودھری
پاکستان کی ایٹمی داستان 1948 سے شروع ہوتی ہے جب قیام پاکستان کے بعد ملک میں ایٹمی تحقیقات سے منسلک کوئی ادارہ نہیں تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر ڈاکٹر رفیع محمد چودھری کو خصوصی دعوت پرمسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے پاکستان بلوایا گیا اور انھیں گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ طبیعیات کے منتظم اعلیٰ کے طور پر تعینات کیا گیا۔ یہاں انھوں نے ایم ایس سی سطح پر طبیعیات کی تدریس شروع کی اور اس طرح یہاں سے 1952 میں ایم ایس سی طبیعیات کرنے والی طالبعلموں کی پہلی کھیپ تیار ہو کر نکلی۔ اسی کالج کے زیر اہتمام انھوں نے پاکستان میں پہلا 12 لاکھ وولٹ کی بجلی پیدا کرنے والا جنریٹر نصب کروا کر ایٹمی توانائی کے شعبے میں تحقیق اور عملی تربیت کی اعلیٰ درجے کی تجربہ گاہ قائم کی۔ پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی تجربہ گاہ تھی جس کے قیام سے طبیعیات کے میدان میں تحقیقی کاموں کا صحت مند رجحان پیدا ہوا اور ملک کو اعلیٰ تربیت یافتہ سائنسدان میسر آنے لگے۔
اس طرح 1955 میں جب پہلی بار "پاکستان اٹامک انرجی کمیشن " (PAEC) کا ادارہ قائم کیا گیا تو پروفیسر رفیع محمد چودھری کے تربیت یافتہ اور فارغ التحصیل طلبہ اس ادارے کو میسر آنےلگے۔ کہا جاتا ہے کہ ایٹم بم کی تیاری میں اٹامک انرجی کمیشن کے قریباََ دس ہزار سائنسدان مصروف عمل رہے جن میں سےاسی فیصد سائنسدان بلا واسطہ یا بالواسطہ طور پر ڈاکٹر رفیع محمد چودھری کے شاگرد تھے۔ان شاگردوں میں سے پچاس سے زائد شاگرد حکومت پاکستان سے کئی اعلیٰ اعزازات حاصل کرچکے ہیں۔ گویا ہم ڈاکٹر رفیع محمد چودھری کو بجا طور پر " بابائے نیوکلیائی سائنس" کہہ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر رفیع محمد چودھری کو 1964 میں حکومت پاکستان کی طرف سے ستارہ خدمت ، 1981 میں ستارہ امتیاز اور 2006 میں (بعد از مرگ) ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔
ڈاکٹر رفیع محمد چودھری 1903 میں ہندوستان کے شہر روہتک میں پیدا ہوئے۔ 1929 میں علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم ایس سی طبیعیات کا ماتحان اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا اور پھر کیمبرج جیسے اعلیٰ تعلیمی ادارے میں مشہور سائنسدان ردر فورڈ کی زیر نگرانی اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی تھی۔ اس وقت انھیں کئی مقامات سے پر کشش پیشکشیں ہوئیں لیکن انھوں نے پاکستان آنا قبول کیا اور پھر اپنی ساری زندگی پاکستان کے لیے وقف کر دی۔ ان کے تیار کردہ محنتی اور محب وطن سائنسدانوں نے پاکستان کے لیے ایٹم بم بنانے کے خواب کی تعبیر کا ناقابل فراموش کارنامہ سر انجام دیا۔ 1948 سے 1998 تک انھوں نے بالکل بے لوث ہو کر پاکستان کی خدمت کی اور اسی سال وفات پائی۔
ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی
پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ اور ممتاز ایٹمی سائنسدان جناب ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی، جنھیں ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، 15 اپریل 1917 میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے امپیریل کالج لندن سے1940 میں فزکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ شروع میں انھوں نے انڈین سول سروس میں نوکری شروع کی لیکن پھر جلد ہی پاکستان آ گئے اور یہاں انھوں نے 1950 سے 1955 تک ڈائریکٹر آف انڈسٹریز کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ 1960 میں صدر ایوب کی خصوصی فرمائش پر انھیں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا چئیر مین بنایا گیا۔ انھوں نے 1960 سے 1971 تک پاکستان کے جوہری پروگرام کو بہت ترقی دی اور سینکڑوں سائنسدانوں اور ماہرین کو پی ایچ ڈی کے لیے باہر بھجوایا تاکہ ملک کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قوت میسر آ سکے۔
ڈاکٹر عثمانی نے کراچی میں 137 میگا واٹ کا پہلا ایٹمی بجلی گھر "کینپ" (KANUPP) قائم کیا۔ اسی طرح انھوں نے راولپنڈی میں پانچ میگا واٹ کا ایک ریسرچ ری ایکٹر اور ملک بھر میں کئی اٹامک انرجی انرجی سنٹرز قائم کئے۔
ڈاکٹر عثمانی کو 1962 میں عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کا چئیر مین منتخب کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کو پاکستان میں بلند پایہ خدمات سرانجام دینے پر 1972 میں ستارہ پاکستان سے نوازا گیا۔ ان کی خدمات کو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی خوب سراہا گیا۔
ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی 1992 میں وفات پا گئے۔ آج ہماری نئی نسل شاید ان کے نام سے بھی واقف نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں ان کی بے بہا بصیرت اور انتھک کاوشیں شامل تھیں۔
ڈاکٹر این ایم بٹ
ڈاکٹر نور محمد بٹ سائنسی حلقوں میں ڈاکٹر این ایم بٹ کے نام سے معروف ہیں۔ وہ 1936 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ 1957 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ڈاکٹر رفیع محمد چودھری کی شاگردی میں ایم ایس سی طبیعات مکمل کی۔ بعد ازاں برمنگھم یونی ورسٹی لندن سے نیوکلیائی طبیعیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
پاکستان واپس آ کر وہ مختلف ایٹمی اداروں سے وابستہ رہے اور پھر 1978 میں انھیں ڈائریکٹر آف نیو کلئیر فزکس ڈویژن تعینات کیا گیا۔پلوٹونیم پر خصوصی کام کی بدولت انھوں نے پاکستان میں ایک نئی لیبارٹری قائم کی۔ 1984 میں انھیں ڈائریکٹر آف انسٹیٹیوٹ آف نیو کلئیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی تعینات کیا گیا لیکن 1996 میں انھوں نے اپنی خوشی سے یہ عہدہ چھوڑ کر چیف سائنٹسٹ کی پوزیشن قبول کر لی۔ 1998 میں چاغی میں قائم کی گئی " نیوکلئیر چین ری ایکشن" لیبارٹری کی تیاری میں ڈاکٹر این ایم بٹ خود بھی شامل تھے۔1999 میں وہ "سائنس ایمریٹس" کے طور پر ریٹائر ہونے والے پہلے پاکستانی سائنسدان تھے۔ بعد ازاں انھوں نے اپنی خدمات طبیعیات پڑھانے کےلیے وقف کر دیں ۔
ڈاکٹر این ایم بٹ طبیعیات کے کئی شعبوں میں دسترس رکھتے تھے۔ انھوں نے ویو مکینکس، سائونڈ وائبریشن ، پرو نیو کلئیر موومنٹ اور نینو ٹیکنالوجی سمیت کئی شعبوں میں اپنی اہلیت کا سکہ منوایا۔ انھیں 2003 سے 2005 تک نیشنل کمیشن آن نینو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا چئیر مین تعینات کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ 2010 میں انھوں نے پاکستان سائنس فائونڈیشن کے چئیر مین کی حیثیت سےبھی خدمات سر انجام دیں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان
محسن پاکستان جناب ڈاکٹر عبد القدیر خان پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی سب سے فعال اور معروف شخصیت ہیں۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے روح رواں اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ان کا کردار کسی تعریف کا محتاج نہیں۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان یکم اپریل 1936 کو بھوپال (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ 1952 میں ہجرت کر کے پاکستان آئے اور 1956 میں کراچی یونیورسٹی سے سالڈ سٹیٹ فزکس میں بی ایس سی فزکس کی ڈگری حاصل کی۔ 1961 میں وہ ایک سکالر شپ پرمٹیریل سائنس پڑھنے مغربی جرمنی چلے گئے اور وہاں سے میٹا لرجی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ 1965 میں وہاں سے نیدر لینڈ کی ڈیلف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی چلے گئے۔ 1972 میں انھوں نے میٹا لرجی(دھات کاری) میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے ہالینڈ کی ایک لیبارٹری میں یورینیم کی افزودگی پرتحقیق شروع کر دی۔
مئی 1974 میں جب ہندوستان نے ایٹمی تجربات کیے تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستانی حکومت سے رابطہ کیا اور انھیں ایٹمی پروگرام شروع کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ اگرچہ پاکستان میں ایٹمی پروگرام کا آغاز ہو چکا تھا لیکن ماہرین کو یورینیم کی افزودگی میں شدید مشکلات پیش آ رہی تھیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بروقت مکمل کرنے کے لیے ہالینڈ کی پر کشش نوکری کو خیر آباد کہا اور 1976 میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے وابستہ ہو گئے۔ انھوں نے یورپی اور مغربی ممالک کے مقابلے میں یورینیم کی افزودگی (Purification of Uranium) کے لیے سنٹری فیوج ٹیکنالوجی کا ایک نسبتاََ سستا اور آسان طریقہ تیار کیا۔
آخر 28 مئی 1998 کا وہ تاریخی دن آن پہنچا جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی ٹیم کے ساتھ بلوچستان میں چاغی کے مقام پر انتہائی افزودہ یورینیم استعمال کرتے ہوئے کامیاب ایٹمی دھماکے کرنے میں کامیابی حاصل کی اور اس طرح پاکستان ایٹمی صلاحیت کا حامل دنیا کا پہلا اسلامی ملک بن گیا۔
ایٹمی پروگرام پر تحقیق کے ساتھ ساتھ انھوں نے " تھرمل کوانٹم فیلڈ تھیوری" اور " کنڈنسڈ میٹر فزکس" جیسے جدید میدانوں میں بھی طبع آزمائی کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان 10 اکتوبر 2021 کو 85 سال کی عمر میں پھیپھڑوں کی تکلیف کی وجہ سے اسلام آباد میں انتقال کر گئے۔ انھیں حکومت پاکستان نے ہلال امتیاز (1989) اور نشان امتیاز (1996اور 1999) سمیت کئی اعزازات سے نوازا۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند
ڈاکٹر ثمر مبارک مند 17 ستمبر 1942 کو پیدا ہوئے۔ 1958 میں لاہور سے نیوکلیئر فزکس میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی ۔ 1962 میں اسکالرشپ پرآکسفورڈ یونیورسٹی پہنچے اوروہاں سے 1966 میں نیوکلیئر فزکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی تحقیق کا موضوع "گاما سپیکٹرو سکوپی" تھا۔
ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد ڈاکٹر مبارک مند پاکستان واپس آئے جہاں انہوں نے 1966 میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) میں شمولیت اختیار کی۔ اگلے سال انہیں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (PINSTECH) بھیج دیا گیا ۔ جنوری 1972 میں ڈاکٹر مبارک مند کو نیوکلیئر فزکس ڈویژن میں تفویض کیا گیا ۔
ڈاکٹر مبارک مند کی ٹیم کو جوہری دھماکے سے سائنسی تجرباتی ڈیٹا اکٹھا کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔1980 کی دہائی میں ڈاکٹر مبارک مند کو ڈائریکٹوریٹ فار ٹیکنیکل ڈیولپمنٹ (ڈی ٹی ڈی) میں منتقل کر دیا گیا۔ یہ ایک خفیہ ادارہ تھا جس میں دھماکہ خیز لینز اورفشن ہتھیاروں کو متحرک کرنے کا طریقہ کار تیار کیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر حفیظ قریشی کے ساتھ ڈاکٹر مبارک مند نے وہاں کے انجینئروں کو تکنیکی مدد فراہم کی۔ پنسٹیک لیبارٹری میں، ڈاکٹر مبارک مند نے ایک اور نیوکلیئر ایکسلریٹر بنایا تاکہ فیوژن ہتھیار میں دھماکے کے عمل کا مطالعہ کیا جا سکے۔ 1998 میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے ہی سائنسدانوں کی ایک مختصر ٹیم کے ساتھ چاغی کی پہاڑیوں میں ایٹمی تجربے کے لیے تمام تکنیکی معاملات کو احسن طریقے سے سر انجام دیا۔
پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے تحقیقی پروگرام کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر مبارک مند کو پاکستان کے میزائل پروگرام کا بانی بھی قرار دیا جاتا ہے۔ 1987 میں، وزارت دفاع نے انٹیگریٹڈ میزائل ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پروگرام شروع کیا، جو کہ ہندوستان کے انٹیگریٹڈ گائیڈڈ میزائل ڈیولپمنٹ پروگرام (IGMDP) کے مساوی پروگرام ہے۔ وزارت دفاع نے اس پروگرام کا آغاز ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قیادت میں کیا۔
ڈاکٹر مبارک مند اس وقت تھر کول پاور پروجیکٹ کے لیے سائنسی خطوط پر کوئلے کی کان کنی کی نگرانی کر رہے ہیں۔ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو ایسے کئی آلات کے ڈیزائن اور ان میں جدت لانے کا سہرا جاتا ہے جو پاکستان کی جوہری اور میزائل ٹیکنالوجی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ڈاکٹر مبارک مند پاکستان کے تین اعلیٰ ترین سول ایوارڈزیعنی ستارہ امتیاز (1993)، ہلال امتیاز (1998) اور نشان امتیاز (2003) وصول کر چکے ہیں ۔ 2000 میں وہ پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کے فیلوبھی منتخب ہوئے۔ عوامی توجہ سے دور رہنے کے باوجود ثمر مبارک مند کو پاکستان کا سب سے بااثر اور نامور ایٹمی سائنسدان سمجھا جاتا ہے۔
چند دیگر سائنسدان
اگرچہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی ترقی میں سینکڑوں سائنسدانوں نے اپنی خدمات پیش کیں ۔ ان سب کا ذکر کرنا ممکن نہیں ہے تاہم پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC ) میں کام کرنے والے محترم ڈاکٹر منیر احمد خان، ڈاکٹر اشفاق احمد خان، ڈاکٹر انور علی،ڈاکٹر انصار پرویز، ڈاکٹر محمد نعیم، ، ڈاکٹر حفیظ قریشی ، ڈاکٹر طاہر حسین اور ڈاکٹر چودھری عبدالمجید سمیت کئی سینئر نیو کلئیر سائنسدانوں اور انجینئرز نے اپنی صلاحیتوں کو وطن عزیز کے دفاع کے لیے وقف کیا اور پاکستان کو ایک مضبوط ایٹمی طاقت بننے میں مدد دی۔ ہم ان تمام سائنسدانوں اور ماہرین کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔