پاکستان کی شان: 10 مشہور اور تاریخی قلعے
پاکستان اپنی بھرپور عسکری تاریخ کی وجہ سے مختلف علاقوں میں بے شمار قلعے رکھتا ہے۔ان میں سے بعض قلعے دشمنوں کی یلغار سے محفوظ رہنے کے لیے جبکہ بعض قلعے بادشاہوں اور نوابوں کی رہائش کے لیے تیار کئے گئے تھی۔ پاکستان میں یہ تمام قلعے اب عوامی تفریحی مقامات بن چکے ہیں ۔ یہ پرانے زمانے کے بادشاہوں کی زندگیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔پاکستان کے یہ دس اعلیٰ قلعے اپنے پورے وقار کے ساتھ تعمیراتی شاہکار کے طور پر کھڑے ہیں۔ یہ تاریخی قلعے پاکستان کو دنیا بھر کے بہترین سیاحتی مقامات کی فہرست میں شامل کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
1۔ لاہور قلعہ (شاہی قلعہ)
پاکستان کا یہ قدیم قلعہ پنجاب کے مشہور تاریخی مقامات میں سے ایک ہے۔لاہور کی مرکزی شناخت اور پاکستان کے سب سے مشہور قلعوں میں سےایک، شاہی قلعہ اپنی تعمیر اور شان و شوکت میں بے مثا ل ہے۔ عام طور پر اسے شاہی قلعہ کہا جاتا ہے۔ یہ مغل سلطنت کی شان و شوکت اور زوال کی ایک قابل ذکر مثال ہے۔
اگرچہ جدید قلعہ لاہور کی بنیاد مغل شہنشاہ اکبر کے دور میں 1566 عیسوی میں رکھی گئی تھی، لیکن مورخین کا دعویٰ ہے کہ اس جگہ پر اس سے 500 سال قبل ایک قلعہ بند ڈھانچہ موجود تھا۔اکبر کے جانشینوں نے بھی اپنے دور حکومت میں قلعہ میں بہت سی تبدیلیاں کیں۔ ہندوستان میں مغل سلطنت کے زوال کے بعد، سکھ سلطنت کے بانی مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس قلعے کو اپنی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا۔ بعد میں اس پر برطانوی افواج نے قبضہ کر لیا۔اگرچہ یہ پورا قلعہ ہی فن تعمیر کا شاندار نمونہ ہے، تاہم اس میں موجود شیش محل اپنی مثال آپ ہے۔ یہ کرسٹل اور باریک سفید سنگ مرمر سے بنا ہوا محل ہے جس میںہزاروں آئینے لگے ہوئے تھے۔
مزید یہ کہ پاکستان کا یہ مشہور قلعہ اپنے منفرد فن تعمیر اور ڈیزائن کے لیے بھی بہت مشہور ہے کیونکہ اس میں اسلامی اور ہندو ثقافت ، دونوں کی جھلک موجود ہے۔ یہ پورا ڈھانچہ 400 کنال سے زیادہ رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور یہ مغل دور کے شاندار دور کی ترجمانی کرتا ہے۔1981میں اقوام متحدہ نے پاکستان کے اس تاریخی قلعے کو یونیسکو کا عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔
2۔ بلتیت قلعہ
گلگت بلتستان کے سفر کے دوران اس تاریخی قلعے کو دیکھنا نہ بھولیں۔ وادی ہنزہ کے خوبصورت قصبے کریم آبادمیں ،یہ قدیم قلعہ، بلتستان کی ایک شہزادی کے جہیز کے تحفے کے طور پر بنایا گیا تھا جس نے ایک مقامی شہزادے سے شادی کی تھی۔
پرانے تبتی طرز تعمیر سے متاثر، گلگت بلتستان میں بلتیت قلعہ سولہویں ویں صدی کا تعمیر کردہ ہے۔بعد میں پہاڑی کی چوٹی پر واقع اس متاثر کن عمارت میں مزید کمرے اور سہولیات شامل کی گئیں۔ درحقیقت، 1945 تک، پاکستان میں یہ تاریخی قلعہ ہنزہ کےمقامی امیر لوگوں کی بنیادی رہائش گاہ کے طور پر کام کرتا تھا۔ تاہم وہ بعد میں پہاڑی کے نیچے ایک اور شاندار قلعے میں چلے گئےکیونکہ انھیں خدشہ ہوا کہ قلعہ شکستہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان کی دس مشہور اور تاریخی مساجد
اس کے کچھ عرصے بعد، رائل جیوگرافیکل سوسائٹی آف لندن نے آغا خان ٹرسٹ فار کلچرل ہسٹورک سٹیز سپورٹ پروگرام کے تعاون سے، پاکستان کے تاریخی قلعے کو اس کی سابقہ شان میں واپس لانے کے لیے بحالی کا پروگرام شروع کیا۔ تزئین و آرائش 1996 میں مکمل ہوئی اور بلتیت ہیریٹیج ٹرسٹ کی نگرانی میں بلتیت قلعہ کو ہیریٹیج میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا۔ اب اسے پاکستان میں سیاحوں کی توجہ کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔
بلتیت قلعہ کے پتھر اور لکڑی کے ڈھانچے میں روایتی انداز میں خوبصورت نقش و نگار اور اینٹوں کا کام کیا گیا ہے۔ قلعے کے اندر زیادہ تر کمرے ایک منزلہ، چوڑے اور مناسب طریقے سے ہوادار ہیں۔ سیڑھیاں بھی پتھر سے بنی ہیں۔
زائرین شاہی باورچی خانے میں بلتستان کے شاہی خاندانوں کے استعمال کردہ ہاتھ سے بنے ہوئے کھانا پکانے کے قدیم برتن بھی دیکھ سکتے ہیں، جب کہ بیرونی صحن میں نایاب مارکو پولو شیپ اور آئی بیکس سمیت متعدد جانوروں کے سر دیواروں پر نصب ہیں۔
چونکہ بلتیت قلعہ ایک پہاڑی چوٹی پر واقع ہے، اس لیے زائرین کو داخلی دروازے تک پہنچنے کے لیے پتھر کی عمودی سڑک پر چلنا پڑتا ہے۔ اگرچہ یہ چہل قدمی قدرے طویل اور تھکا دینے والی ہے لیکن قلعہ سے کیا جانے والا دلکش نظارہ اس تھکاوٹ کو یقینی طور دور کر دیتا ہے۔
3۔ روہتاس قلعہ
جہلم شہر کے قریب دینہ شہر میں واقع قلعہ روہتاس کا شمار پاکستان کے خوبصورت قلعوں میں ہوتا ہے۔ اسے بادشاہ شیر شاہ سوری نے 1540 سے 1547 عیسوی کے درمیان تعمیر کیا تھا۔ اس قلعے کی تعمیر کا اصل مقصد پوٹھوہار کے مقامی قبائل کی طاقت کو الگ کرنا تھا جنہیں گکھڑ کہتے ہیں۔ بادشاہ قلعہ روہتاس کو جنگ میں استعمال کرنا چاہتا تھا۔ فن تعمیر کے حوالے سے یہ قلعہ 5.2 مربع کلومیٹر رقبے کا حامل ہے جو خوبصورت پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس کے بیشتر حصوں پر پتھروں کا عمدہ کام کیا گیا ہے۔- قلعہ روہتاس کے 11 دروازے ہیں ۔
اس قلعے کو جنوبی ایشیا میں فوجی قلعہ بندی کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے اس تاریخی قلعے میں ایک وقت میں 30,000 فوجی جوان رہ سکتے ہیں، سوری نے اس قلعے کی تعمیر کے لیے پوٹھوہار سطح مرتفع پر ایک بلند پہاڑی کا انتخاب کیا تاکہ اس کی افواج اس علاقے میں گزرنے والے راستے پر نظر رکھ سکیں۔ جہاں تک دفاعی میکانزم کا تعلق ہے، روہتاس قلعے کے چاروں طرف تقریباً چار کلومیٹر کی مضبوط دیواریں ہیں۔1997 میں، یونیسکو نے اس ناقابل تسخیر قلعےکو عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا ۔ نیز اسے "وسطی اور جنوبی ایشیا کے مسلم فوجی فن تعمیر کی ایک غیر معمولی مثال"بھی قرار دیاگیا۔
4۔ رانی کوٹ قلعہ
رانی کوٹ قلعہ سندھ کی فصیل (عظیم دیوار ) کے طور پر مشہور ہے۔یہ ضلع جامشورو میں واقع ہے اور ملک کا ایک طلسماتی عجوبہ ہے۔ یہ 836 عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا لیکن اسے 1812 میں دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کا محیط تقریباً 26 کلومیٹرہے جو اسے دنیا کا سب سے بڑا قلعہ بناتا ہے۔ اس کی ساختی خرابی کی وجہ سے، اسے میر کرم علی خان تالپور اور ان کے بھائی میر مراد علی نے 1812 میں دوبارہ تعمیر کیا تھا۔ اسٹریٹجک ڈھانچے کے ساتھ خوبصورت فن تعمیر اس دور کے ذہین کاریگروں کی قابلیت کی نشاندہی کرتا ہے۔
اس کی دیوار وں پر پیچیدہ نقش و نگار اور پھولوں کے روایتی ڈیزائن کے ساتھ، زائرین رانی کوٹ کمپلیکس کے اندر مزید چھوٹے قلعے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس علاقے میں تین قدیم قبرستان بھی ہیں۔
5۔ دراوڑ قلعہ
قلعہ دراوڑ صحرائے چولستان کی ایک شاندار خوبصورتی ہے۔ یہ بہاولپور شہر سے 130 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ اسے دیکھنے کا بہترین وقت مشہور جیپ ریلی کے دوران فروری میں ہے۔ اس کے چالیس گڑھ صحرا میں میلوں تک نظر آتے ہیں۔
قلعہ دراوڑ پاکستان کے ان قلعوں میں سے ایک ہے جو موجودہ دور میں اپنی بہترین حالت میں ہے۔ یہ قلعہ بہاولپور کے شاہی خاندان کی رہائش گاہ تھا ۔ 1,500 میٹر کا طواف والا قلعہ دراوڑ پاکستان کے بڑے قلعوں میں سے ایک ہے۔اس کی دیواریں 30 میٹر تک اونچی ہیں۔ ڈیراوڑ قلعہ ہندوستان کی ریاست راجستھان سے تعلق رکھنے والے ایک ہندو حکمران نے جیسلمیر اور بہاولپور خطے کے خودمختار بادشاہ راول دیوراج بھٹی کو خراج عقیدت کے طور پر تعمیر کیا تھا۔ مورخین کا خیال ہے کہ بڑے مربع قلعے کو ابتدا میں "ڈیرہ راول" کہا جاتا تھا جو بعد میں" ڈیرہ راوڑ "اور پھر" ڈیراوڑ" میں تبدیل ہو گیا۔ اسے 1733 میں تعمیر کیا گیا تھا۔
خستہ حال سرخ اینٹوں والا قلعہ، جو چولستان کے وسیع صحرا میں میلوں تک نظر آتا ہے۔ قلعہ نے حالیہ برسوں میں نئی شہرت حاصل کی ہے کیونکہ چولستان میں کیمپنگ ایڈونچر کے متلاشیوں میں کافی مقبول ہو گیا ہے۔ یہ ٹور نہ صرف لوگوں کو دراوڑ قلعہ کی دیواروں کے قریب ستاروں کے نیچے سونے کا موقع فراہم کرتے ہیں بلکہ مقامی کھانوں اور ثقافت سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔
6۔ قلعہ بالا حصار
خیبر پختونخواہ کے اہم سیاحتی مقامات میں سے بالا حصار قلعہ پشاور میں واقع ہے۔ یہ 19ویں صدی کے اوائل میں افغان بادشاہوں کی رہائش گاہ تھی۔ بالا حصار نام کا مطلب ہے بلند اونچا قلعہ۔ عظیم فن تعمیر کا خوبصورت نظارہ زائرین کو بہت خوش کرتا ہے۔ اس قلعے نے جنگوں کے دور میں اچھے اور برے وقت دیکھے ہیں جس کے نتیجے میں قلعہ خاصی حد تک تباہ بھی ہوا لیکن پھر بھی یہ معقول حد تک اچھی حالت میں محفوظ ہے اور دیکھنے والوں کو مسحور کر دیتا ہے۔
اب اس کی مکمل تزئین و آرائش کر دی گئی ہے اور فی الحال پاکستان فرنٹیئر کور کے زیر استعمال ہے۔
7۔ لال قلعہ مظفرآباد
لال قلعہ کو مظفرآباد قلعہ بھی کہا جاتا ہے۔یہ 1646 میں تعمیر کیا گیا تھا، اس لیے پاکستان کے قدیم ترین قلعوں میں سے ایک کے طور پر مشہور ہے۔اس کا حیرت انگیز فن تعمیر اس دور کے تعمیر کنندگان کی مہارت کی عکاسی کرتا ہے۔یہ قلعہ کشمیر کے چک حکمرانوں نے 16ویں صدی میں تعمیر کرنا شروع کیااور بعد میں سلطان مظفر خان نے اسے مکمل کیا۔
کشمیر میں دریائے نیلم کے ساتھ واقع ہونے کی وجہ سے، لال قلعہ قدرتی خوبصورتی کا حامل آثار قدیمہ کا مثالی مقام ہے۔ یہ تین اطراف سے دریائے نیلم کی قدرتی خوبصورتی میں گھرا ہوا ہے۔
8۔ اسکردو قلعہ
یہ وادی اسکردو میں واقع ہے جو اسکردو کے بادشاہوں کی شاہی رہائش گاہ ہوا کرتی تھی۔ یہ 16ویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس کی اہمیت کی وجہ سے مغل بادشاہ اورنگزیب نے قلعہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔
9۔ قلعہ کوئٹہ
صوبہ بلوچستان میں کوئٹہ کا قلعہ ایک فوجی چھاؤنی کا قلعہ ہے جسے 19ویں صدی کے آخر میں برطانوی سلطنت نے تعمیر کیا تھا۔ اس کی تاریخی اہمیت اور بے عیب خوبصورتی اسے پاکستان کے بہترین قلعوں میں سے ایک بناتی ہے۔
10 ۔صادق گڑھ پیلس
پاکستان کے چوٹی کے قلعوں کی بات کرتے ہوئے صادق گڑھ کا خوبصورت محل بھی ذکر کرنے کا مستحق ہے۔ یہ قدیم لیکن شاندار محل ڈیرہ نواب صاحب، ضلع بہاولپور میں واقع ہے۔ صادق گڑھ محل کو بہاولپور کے بادشاہ نواب صادق محمد خان نے 1882 میں بنایا تھا۔ انجینئروں نے 10 سال کے عرصے میں بہاولپور کا یہ خوبصورت شاہکار تعمیر کیا۔
اس کے مرکز میں موجود خوبصورت گنبداس کی خوبصورتی اور عظمت کو چار چاند لگاتا ہے۔ سرسبز لان اور ایک بڑی دیوار صادق گڑھ محل کو گھیرے ہوئے ہے۔