پاکستان کا عظیم ترین کرکٹر: آخری قسط
وسیم اکرم اورعمران خان ، ان دونوں میں سے ایک کو عظیم ترین کھلاڑی کے طور پر چننا بڑا ہی جان جوکھوں کا کام ہے کیوں کہ دونوں کی عظمت کا لوہا ساری دنیا نے مانا ہے۔ اور دونوں کی کامیابیاں کم از کم پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ میں تو ناقابل تقابل ہیں۔
پہلے بات کرتے ہیں وسیم اکرم کی۔ آج سے چند سال پہلے کرکٹ کی مشہور ویب سائیٹ ای ایس پی این کرک انفو (ESPNCRICINFO) نے ماہرین کو مدعو کیا کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ اور ون ڈے کرکٹ کی آل ٹائم گریٹ الیون بنائیں۔ پاکستان کی طرف سے جس واحد کھلاڑی کا نام دونوں ٹیموں میں آیا وہ وسیم اکرم کا تھا۔ بلکہ خاص بات یہ بھی تھی کہ ون ڈے کرکٹ کی آل ٹائم گریٹ الیون منتخب کرتے ہوئے وہ واحد کھلاڑی ، جس کا نام ہر ماہر کی بنائی ہوئی ٹیم میں تھا ،وہ وسیم اکرم تھے۔ جس طرح ٹیسٹ کرکٹ میں ایک کھلاڑی، جس پر سب کا اتفاق تھا، وہ سر ڈان بریڈ مین تھے۔ یعنی آپ وسیم کو باآسانی ون ڈے کرکٹ کا بریڈ مین سمجھ سکتے ہیں۔ جب کہ وسیم کا نام ٹیسٹ کی بہترین الیون میں بھی تھا۔ آپ اس دور کے کسی بھی کھلاڑی سے پوچھ لیں، وہ کہے گا کہ وسیم مکمل ترین باؤلر تھے ۔ ٹیسٹ کرکٹ اور ون ڈے دونوں شعبوں میں اس پیمانے پر کامیابی حاصل کرنا ایک غیر معمولی ترین کارکردگی ہے۔ پچ کیسی بھی ہو، وسیم جب اپنی کرنے پر آتے تھے تو ان کے سامنے کوئی بھی نہیں ٹک سکتا تھا ۔ اگر پاکستان کی فیلڈنگ تاریخی طور پر اتنی گھٹیا نہ ہوتی تو مجھے یقین ہے وسیم کی وکٹوں کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہوتی۔ اس کے علاوہ وسیم اکرم ایک مناسب ، جارح مزاج بلے باز بھی تھے۔ انہوں نے تین سنچریاں بھی بنائی ہیں جن میں ایک ڈبل سنچری ، یعنی 257 رنز بھی شامل ہے۔ ون ڈے کرکٹ میں لوور آرڈر میں ہارڈ ہٹنگ بھی وسیم اکرم بہت خوب کر لیتے تھے۔ گویا وسیم اکرم ایک مکمل پیکج تھے۔
دوسری طرف عمران خان ہیں۔ جس طرح آپ کسی کو بھی کہیں کہ عظیم باؤلرز کی لسٹ بناؤ تو اس میں وسیم کا نام لازماً شامل ہو گا اس طرح آپ کسی کو بھی کہیں کہ تاریخ کے عظیم ترین آل راؤنڈرز کی لسٹ بنائیں تو پہلے پانچ میں عمران کا نام لازماً شامل ہو گا۔ کسی آل راؤنڈر کے دونوں شعبوں میں نمایاں ہونے کا ایک سادہ فارمولا یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کی بیٹنگ اوسط میں سے ان کی باؤلنگ اوسط کو منفی کر لیا جائے ۔
جتنا بھی یہ فرق زیادہ ہو گا اتنا ہی وہ دونوں شعبوں میں کامیاب ہو گا۔ یوں سمجھیں کہ سر گیری سوبرز کی بیٹنگ اوسط ستاون اعشاریہ سات آٹھ اور باؤلنگ اوسط چونتیس اعشاریہ صفر تین ہے تو یہ فرق تئیس اعشاریہ سات پانچ کا ہے۔ دنیائے کرکٹ کے نمایاں اور بڑے آل راؤنڈرز میں اس معاملے میں عمران سے بہتر صرف سوبرز اور کیلس ہیں ۔ سوبرز کے لئے یہ فرق تئیس اعشاریہ سات پانچ کا ہے تو کیلس کا یہ فرق بائیس اعشاریہ سات دو کا۔ عمران کا یہ فرق چودہ اعشاریہ آٹھ ایک کا ہے۔
باقی لوگ کہاں ہیں ، اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ بوتھم جسے بہت بڑا آل راؤنڈر سمجھا جاتا ہے، اس کا یہ فرق صرف پانچ اعشاریہ ایک کا ہے۔ کپیل کا تقریبا دو، ہیڈلی کا پانچ ۔
دور حاضر کے بڑےآل راؤنڈرز ، یعنی بین اسٹوکس ، شکیب الحسن اور فلنٹوف بھی عمران سے پیچھے ہیں۔
عمران کے ساتھ ایک نا انصافی یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کے باؤلنگ کے ریکارڈز اس کی آل راؤنڈر کارکردگی کی دھند میں چھپ جاتے ہیں۔ عمران کی باؤلنگ اوسط ٹیسٹ کرکٹ میں وسیم اور وقار سے ہی نہیں مائیکل ہولڈنگ، ڈینس للی،جیف تھامپسن، اینڈی رابرٹس ، باب وِلس ، ایان بوتھم وغیرہ سب سے اچھی ہے۔ عمران خان کی ٹیسٹ باؤلنگ اوسط 22 اعشاریہ آٹھ ایک ہے ۔ جبکہ وسیم اور وقار دونوں تئیس کی لائن میں ہیں ۔ یہ اندازہ لگائیے کہ پچھلی ڈیڑھ دہائی کے سب سے کامیاب اور بلاشبہ عظیم باؤلر ، ڈیل اسٹین بھی عمران خان سے باؤلنگ ایوریج کے معاملے میں یعنی رنز فی وکٹ کی اوسط میں پیچھے ہیں ۔ کم از کم ٹیسٹ کرکٹ میں عمران کا ریکارڈ وسیم اور وقار دونوں سے بہتر ہے۔ وسیم اکرم کے مقابل تو عمران خا ن کا باؤلنگ سٹرائیک ریٹ ، یعنی کم ترین گیندوں میں ایک وکٹ کا تناسب بھی بہتر ہے ۔ پاکستان کی طرف سے ایک اننگز میں سب سے اچھی باؤلنگ کی لسٹ میں پہلی دس میں تین کارکردگیاں عمران کی ہیں جب کہ باقی کسی کا نام دو بار بھی نہیں آیا۔ البتہ ون ڈے میں ان کی باؤلنگ کی کارکردگی ہر اعتبار سے وسیم اکرم سے دبی ہوئی ہے ۔
اب ان دونوں عظیم کھلاڑیوں میں سے کسی ایک کو پاکستان کے عظیم ترین کھلاڑی کے طور پر چننا کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔
آخری مرحلہ رہ جاتا ہے قیادت کا ، تو دونوں ہی بہترین کپتان تھے ۔ عمران خان نے ورلڈ کپ کی فتح اپنے نام کی تو وسیم اکرم بھی ننانوے کے فائنل تک پہنچے ۔ بہر حال ، عالمی سطح پر اگر تقابل کیا جائے تو عمران خان کو تاریخ کے بڑے کپتانوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ مگر وسیم اکرم اس میدان میں بھی ان سے کسی طور پیچھے نہیں تھے
اگر سچ پوچھیے تو یہ میچ ٹائی ہے ، 2007 ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پاکستان بمقابلہ بھارت کے گروپ میچ ، یا دو ہزار انیس ورلڈ کپ فائنل کی طرح بالکل اور قطعی Stalemate۔ ہماری انتہائی ذاتی رائے میں عمران شاید وسیم پر معمولی سی فوقیت رکھتے ہوں ، یعنی سو اور ایک سو ایک والا معاملہ رہا ہو گا، وگرنہ اسے برابر ہی سمجھیے۔