پاکستان بمقابلہ افغانستان میچ ، توقعات اور ممکنات

افغانستان کی پہلی کرکٹ ٹیم ان کھلاڑیوں سے تشکیل پائی  تھی کہ جو سب کے سب پاکستان میں پیدا ہوئے تھے اور پاکستان نے ہی اس ٹیم کی ڈویلپمنٹ میں مدد کی تھی۔ جس سے وہ بہت کم عرصہ میں فُل ممبر سٹیٹس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ۔  یہ نظریہ   درست ہو سکتا ہے مگر غلط یہ بھی نہیں کہ اب افغانستان ایک خطرناک ٹیم بن چکی ہے اور خصوصا ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ جو ایک لاٹری کی طرح ہے ، جس میں جیت کسی کی بھی ہو سکتی ہے ۔ جمعہ 29 اکتوبر کا میچ دونوں ٹیموں کے مابین ایک ٹف میچ ہو گا ۔

  افغانستان کی موجودہ ٹیم کو کسی صورت بھی ہلکا نہیں لیا جا سکتا  ۔ پاکستان کے گروپ میں بقیہ تین میچوں میں یہی ٹیم اس  قابل ہے کہ  ٹیم گرین کے جیت کے تسلسل کو توڑ اور ہیٹ ٹرک  کرنے سے روک سکتی ہے ۔ اس وقت تک ایک میچ کھیلنے کے بعد افغانستان کا رن ریٹ 6.5 تمام 12 ٹیموں میں سے سب سے زیادہ بلکہ بہت زیادہ ہے۔ پاکستان 0.74 کے ساتھ کہیں دور نظر آتا ہے ، تاہم فرق یہ ہے کہ افغانستان نے اپنا واحد میچ ایک نسبتا کمزور ٹیم سے جبکہ پاکستان نے ٹورنامنٹ کی دو مضبوط ٹیموں کو ہرایا ہواہے ۔

  افغانستان بھی ابھی تک پاکستان کی طرح ناقابل شکست اور گروپ بی میں ٹاپ 2 میں ہے ۔ اگر اس میچ میں افغانستان جیت گیا تو پاکستان کی طرح 4,4 پوائنٹس برابر ہونے کے باوجود رن ریٹ کی بناء پر ٹاپ پر چلا جائے گا ۔

  جہاں تک ٹی ٹوئنٹی کی بات ہے تو دونوں ٹیمیں صرف ایک مرتبہ 8 سال پہلے 2013 میں آمنے سامنے آئی تھیں جو پاکستان نے ایک گیند پہلے جیت لیا تھا، تاہم ون ڈے میچوں میں آمنا سامنا زیادہ رہا ہے ، جبکہ 2018 کا ایشیا کپ اور 2019 کا ون ڈے ورلڈ کپ تو آخری اوور تک گیا تھا ۔ گو پاکستان آخر میں جیت گیا مگر افغانستان کرکٹ ٹیم نے ایک موقع پر تو   تراہ  ہی نکال دیا تھا ۔ 

 کیا افغانستان پہلی مرتبہ سیمی فائنل میں پہنچ سکتی ہے؟

بالکل ممکن ہے ، خصوصا سکاٹ لینڈ کے خلاف بڑی فتح اور زبردست رن ریٹ نے اس کے چانسز بڑھا دئیے ہیں ، تاہم اس کا انحصار بہت حد تک پاکستان سے میچ پر ہو گا ، جس میں فتح افغانستان کا گراف تیزی سے اوپر لے جائے گی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ افغانستان اس میچ میں کیسا پرفارم کرتا ہے ؟  اگر دونوں ٹیموں کے دیگر ٹیموں سے آخری پانچ ٹی ٹوئنٹی کو دیکھا جائے تو افغانستان تمام کے تمام جیتا ہوا ہے جبکہ پاکستان تین میں فاتح تو دو میں ناکام رہا تھا۔

  کون، کون خطرہ ہو گا ؟

پاکستان کو سب سے زیادہ خطرہ حضرت اللہ زازئی سے ہو گا  جو نہ صرف پشاور زلمی کی جانب سے  پی ایس ایل کھیلے تھے بلکہ دھواں دھار بیٹنگ کرتے ہوئے پانچ میچوں میں185.96 کے سٹرائیک ریٹ سے 212 رنز بھی بنائے تھے اور یہ پرفارمنسز یو اے ای کی انہی وکٹوں پر سامنے آئی تھیں کہ جن پر رنز کرنا اتنا آسان بھی نہیں ہے ۔ زازئی پاکستان کے ان بولروں کا پہلے بھی سامنا کر چکے ہیں اور وارم اپ میچ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف 35 گیندوں پر 56 اور سکاٹ لینڈ کے خلاف پہلے میچ میں 30 گیندوں پر 44 رنز سے بھرپور فارم میں بھی نظر آتے ہیں ۔

  زازئی کے علاوہ افغانستان کے راشد خان سمیت تین سپنرز بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ اب پاکستان کے اوپنرز کے ساتھ ساتھ تجربہ کار شعیب ملک اور محمد حفیظ انہیں کیسے کھیلتے ہیں ، یہ دیکھنا بہت اہم ہو گا۔ راشد خان 99 وکٹیں لے چکے ہیں اور جس طرح 26 اکتوبر کو کیوی بولر ٹم ساؤتھی نے بابر اعظم کو بولڈ کر کے اپنا 100 واں شکار کیا تھا ، اسی طرح راشد بھی کسی پاکستانی بلے باز کو  اپنا 100واں شکار بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں ۔

  پاکستان و افغانستان 2019 ون ڈے ورلڈ کپ میں آمنے سامنے آئے تو کراؤڈ کے مابین پہلے نعرہ بازی اور بعد ازاں بات ہاتھا پائی تک بھی پہنچ گئی تھی جو کہ بہت ہی افسوسناک تھا ۔ امید ہے اس مرتبہ کراؤڈ دونوں طرف سے اچھی پرفارمنس پر کُھل کر سپورٹ کرے گا اور اس میچ کو ایک جنگ کی طرح نہیں بلکہ کھیل کی طرح ہی لے گا کہ کھیل تو دلوں کو قریب لاتے ہیں اور جو بھی جیت گیا ، اسے اپنی فتح کو سیلیبریٹ کرنے کا بھی پورا پورا حق حاصل ہے ۔

پاکستانی فینز سے بھی گزارش ہے کہ جیت ملے تو بھی افغانستان یا ان کے کرکٹرز کا کسی طور مذاق نہ اُڑائیں کہ یہ ملک ایک مشکل صورتحال سے گزر رہا ہے اور ایسے میں بھی ان کی ٹیم ورلڈ کپ کھیلنے پہنچی ہے تو اسے ہماری حوصلہ افزائی اور سپورٹ کی ضرورت ہے ۔ دُعا ہے کہ قومی ٹیم  اپنی پرفارمنس کے تسلسل کو برقرار رکھے اور جیت کی طرف ایک اور قدم بڑھا کر سیمی فائنل سے اور قریب  ہو جائے، لیکن اگر افغانستان بھی جیت گیا تو ہم ان کو بھی اچھی پرفارمنس پر بھرپور داد دیں گے کہ اب دلوں کو توڑنا نہیں بلکہ جوڑنا ہے۔