یوم دفاع پاکستان: کیا پاک بھارت جنگ ایک سٹرک کی وجہ سے شروع ہوئی؟
حالیہ عالمی سیاسی منظرنامے کے تناظر میں نوجوان نسل کو پاکستان کی تاریخ سے واقف کرانا بہت اہم اور وقت کی ضرورت ہے۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کیوں ہوئی؟ کس ملک نے پہل کی؟ اس جنگ کی تین بڑی وجوہات کیا تھیں؟ آئیے اس پہلو کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
ہر سال چھے ستمبر کو یوم دفاع پاکستان منایا جاتا ہے۔ یہ دن ہر سال 1965 کی جنگ کے ہیروز کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان شہداء کو یاد کرنے کے لیے منایا جاتا ہے جنہوں نے انتہاء درجے کی بہادری اور حب الوطنی کی مثالیں قائم کیں۔
پینسٹھ کی جنگ نے ہمارے جیو پولیٹیکل ماحول کو بھی بدل کر رکھ دیا اور ایسے اسباب پیدا کیے جنہوں نے فوجی آمریت کو مؤثر طریقے سے غیر مستحکم کر دیا۔ اس جنگ نے پاکستانی سیاسی شعور کو بڑی حد تک سسٹم کی بنیاد بنا دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عروج اور ایوب خان کے زوال کا 1965 کی جنگ سے گہرا تعلق ہے۔ چھپن سال بعد اب دنیا تسلیم کرتی ہیے کہ پاکستان نے میدان جنگ میں جو بھی کامیابیاں حاصل کیں اس کی تین بڑی وجوہات درج ذیل ہیں:
1965 کی جنگ کی بڑی وجوہات :
پینسٹھ کی جنگ اگرچہ ہندوستان نے غیر اعلانیہ طور پر اس اچانک کیا تھا تاہم اس کی چند وجوہات پہلے سے پنپ رہی تھیں جو رفتہ رفتہ دونوں ممالک کو ایک بھیانک جنگ کی طرف کھینچ رہی تھیں ۔
1۔ رَن آف کَچھ کا تنازع: ایک سڑک کی وجہ سے جنگ شروع ہوئی
یہ تنازعہ ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت کے دنوں کا ہے۔ رَن شاہی ریاست کچھ اور برطانوی ہندوستانی صوبہ سندھ کے درمیان تنازع کی وجہ تھی۔ جب برٹش انڈیا تقسیم ہوا تو کچھ کا ہندوستان اور سندھ کا پاکستان سے الحاق ہوا۔ یہ مسئلہ ان دونوں ریاستوں کے تقریباً 3500 مربع میل کے علاقے کو وراثت میں ملا تھا۔ جنوری 1965 کے بعد سے سرحدی کشیدگی بڑھنے لگی۔ ہر لحاظ سے بھارتی افواج کو کچھ کے علاقے میں پاکستانی فوج نے بری طرح شکست دی۔ برطانیہ میں ہونے والی دولت مشترکہ کانفرنس میں برطانوی وزیر اعظم ہیرالڈ ولسن نے کامیابی سے بھارت اور پاکستان دونوں کو تنازع کے حل کے لیے 30 جون 1965 کو ایک معاہدے پر دستخط کرنے پر آمادہ کیا۔ اس تنازعہ کو حل کرنے کے لیے ایک ٹریبونل قائم کیا گیا۔ اس ٹربیونل نے 19 فروری 1965 کو اپنا فیصلہ سنایا۔ اس نے شمالی حصے میں 350 مربع میل کا علاقہ پاکستان کو اور بقیہ رن کا علاقہ بھارت کو دے دیا۔ یہ غیر منصفانہ تقسیم بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافے کا سبب بنی۔
2۔ کشمیر میں جنگ:-
کشمیر میں کشیدگی بھی عروج پر تھی۔ ہندوستانی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے کشمیر کو ہندوستان کے سیاسی وجود میں مزید جذب کرنے کے اقدامات کرکے جلتی پہ تیل چھڑکنے کا کام کیا اور کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے کامیاب تعلقات میں مسئلہ کشمیر کو ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 356 اور 357 کا کشمیر ریاست پر اطلاق کیا گیا جس نے ہندوستان کے صدر کو کشمیر میں صدارتی راج قائم کرنے اور قانون سازی کرنے کے قابل بنا دیا تھا۔
کشمیر کو مکمل طور پر ہندوستانی یونین میں ضم کرنے کی کوشش کی گئی۔ کشمیری رہنما شیخ عبداللہ نے کشمیر کاز کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے لاتعداد غیر ملکی دورے کیے۔ لیکن اسے گرفتار کر لیا گیا ۔
کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے 30 مارچ کو آئینی ترمیمی بل منظور کیا، جس کے تحت مندرجہ ذیل اقدامات عمل میں لائے گئے:
(الف) سردارِ ریاست کو اب گورنر کے نام دیا گیا اور وہ مقامی اسمبلی کے ذریعہ منتخب ہونے کے بجائے ہندوستان کے صدر کی طرف سے مقرر کیا جانے لگا۔
(ب) وزیر اعظم وزیر اعلیٰ کی طرز کا عہدہ ہو گیا جیسا کہ ہندوستانی یونین کی ریاستوں میں ہوتا تھا۔
کشمیری عوام نے بھارتی سامراج کے خلاف مکمل جنگ کا آغاز کر دیا اور جموں و کشمیر کے عوام کی قومی حکومت قائم کی۔ اس کے نتیجے میں آزاد کشمیر میں بھی بے چینی پھیلنے لگی۔ ہندوستانی فوج نے اپنی باقاعدہ مسلح افواج کے ساتھ جنگ بندی لائن کے اس پار کئی نئی پیش قدمیاں کیں۔
3۔لاہور کی جانب جارحانہ پیش قدمی:
6 ستمبر 1965 کو صبح 3 بجے، جنگ کے باضابطہ اعلان کے بغیر، ہندوستانیوں نے مغربی پاکستان کی بین الاقوامی سرحد عبور کی اور لاہور، سیالکوٹ اور راجستھان کے خلاف تین جہتی حملہ شروع کیا۔ پنجاب کے میدانی علاقوں میں ٹینکوں کی زبردست جنگ ہوئی۔ پاک بھارت مقامی تنازعہ ایک بین الاقوامی تنازعہ میں تبدیل ہو گیا اور سپر پاورز کے خدشات بڑھ گئے۔
چین نے مداخلت کی دھمکی دی اور پاکستان کو فوجی مدد کی پیشکش کی۔ چین کو اس تنازعے سے دور رکھنے کے لیے سوویت یونین اور امریکہ دونوں نے اقوام متحدہ پر فوری جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالا۔
سوویت یونین جو کہ بھارت اور پاکستان کی جنگ کے دوران غیر جانبدار رہاتھا، اس کے بعد اس نے تاشقند میں ثالث کا کردار ادا کیا۔ سوویت حکومت نے ایک پیغام میں 8 دسمبر 1965 کو باضابطہ طور پر اعلان کیا گیا کہ ہندوستانی وزیر اعظم شاستری اور پاکستانی صدر ایوب 4 جنوری 1966 کو تاشقند میں ملاقات کریں گے۔ تاشقند کانفرنس 4 جنوری سے 10 جنوری تک جاری رہی۔ سوویت وزیر اعظم نے ایک امن ساز کے طور پر خاصی پذیرائی حاصل کی۔ کانفرنس کی اہم کامیابی 25 فروری 1966 کے بعد تمام مسلح اہلکاروں کو 5 اگست 1964 سے پہلے کی پوزیشن پر واپس لے جانا تھا۔ یوں برصغیر کی یہ خطرناک اور تباہ کن جنگ کو اختتام پہنچی لیکن پاکستانی قوم کی تاریخ کو جرات، بہادری اور شجاعت کی بےشمار لازوال خون سے لکھی داستانیں دے گئی جو ہمیشہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ کا کام کریں گی۔