پاکستان فضائیہ کے پاس کون کون سے جنگی جہاز ہیں؟

Induction of J-10C aircraft has further strengthened PAF as a formidable and potent force well capable of defending the aerial frontiers
جب  میں نے پاکستانی افواج کی پریڈ دیکھی تو پریڈ میں فضائیہ کے جنگی جہازووں نے خوب کرتب دکھائے۔ چاہے امریکی ساختہ ایف سولہ ہو، مقامی طور پر جے ایف سترہ  یا ابھی ابھی  چین سے خریدے جے  ٹین سی، ہر ایک کا نظارہ دیدنی تھا۔ سوچا کیوں نہ ان سب جہازوں کی تفصیلات کھوجی جائیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان اس وقت چین کی مدد سے جے ایف سترہ تھنڈر جیسے  طیارے مقامی طور پر تیار کر رہا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان  ابھی تک  جنگی طیاروں سمیت زیادہ تر عسکری ہتھیار دوسرے ممالک سے ہی خریدتا ہے۔   اس میں فرانس، امریکہ، روس اور چین شامل ہے۔ یہ بات بالکل اچھنبے کی نہیں کہ امریکہ سے ہتھیار خریدنے کی خاطر پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی سمیت دیگر جگہوں پر مصالحت سے کام لینا پڑتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو امریکہ ذرا دیر نہیں لگاتا پابندیاں لگانے میں۔ آپ کو 1990 والا وقت تو یاد ہی ہوگا۔ جب پاکستان سے سوویت یونین کو افغانستان سے نکالنے   کا مفاد لینے کے بعد امریکہ نے پاکستان پر پریسلر امینڈمنٹ کے تحت پابندیاں لگا دیں تھیں۔ ان پابندیوں  کے ذریعے ان 28 اف سولہ جہازوں کی فراہمی پاکستان کو روک دی گئی تھی جن کی وہ ایک ارب ڈالر سے زائد ادائیکی کر چکا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ امریکہ نے وہ آلات بھی روک لیے تھے جو  پاکستان نے صرف مرمت یا اپگریٹ کی خاطر دیے تھے۔ امریکہ نے پاکستان  پر لگائی یہ پابندیاں ہٹانے کی 2001 کے بعد کیا قیمت   وصولی تھی، مجھے آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں۔  یہ تو اس وقت کی بات ہے ابھی بھی پاکستان امریکہ سے آپاچی  اے چونسٹھ ہیلی کوپٹر خریدنا چاہتا تھا، لیکن امریکہ کا پاکستان سے کوئی خاس مفاد نہیں تھا تو اس نے پاکستان کو  بیچنے سے انکار کر دیا اور تو اور پاکستان نے پھر اس کا ہم پلہ ہیلی کاپٹر ترکی سے خریدنے کی کوشش کی تو یہ بھی امریکہ نے ہونے نہ دیا۔ دراصل اس ہیلی کاپٹر میں جو انجن استعمال ہونا تھا  اس کا لائسنس امریکہ نے دینا تھا، جو  کے امریکہ نے دینے سے انکار کر دیا۔ اس وجہ سے پاکستان ترکی سے یہ ہیلی کاپٹر خریدنے میں ناکام رہا۔ سالوں کی کوشش کے بعد اب مجبوراً پاکستان کو چین سے زی 10 ہیلی کاپٹر خریدنا  پڑ رہے ہیں۔  پاکستان اگر اس قسم کی  بلیک میلنگ سے بچنا چاہتا ہے اور خود مختاری حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے ہتھیاروں کو خود تیار کرنا ہوگا۔
خیر۔
ہم اپنے فضائیہ کے پاس جنگی جہازوں کے موضوع پر واپس آتے ہیں۔   پاکستان  کو اپنے ہمسائے میں موجود دشمن سے مقابلے کے لیے  اپنی فضائیہ کو ہر دم تیار رکھنا پڑتا ہے۔ کیونکہ نہیں معلوم کہ کب ستائس فروری دہرانا پڑ جائے۔ اس کے لیے پاکستان  کو سب سے زیادہ دفاعی بجٹ بھی  فضائیہ پر ہی خرچنا پڑتا ہے۔ تاکہ اسے جدید سے جدید ہتھیاروں سے لیس رکھا جا سکے۔
پاکستان نے فضائیہ کے لیے پہلی بار امریکہ سے طیاروں کی خریداری 1957میں کی تھی جب اس نے سو شہپر 86 طیارے امریکہ سے خریدے تھے۔  یہ وہی  طیارہ ہے جس کو اڑا کر لیٹل ڈریگن ایم ایم عالم نے 1965 میں  بھارت کے منٹ سے بھی پہلے پانچ جہاز گرا دیے تھے۔ یہ وہ ریکارڈ ہے جو اب تک توڑا نہیں جا سکا۔ 1965 میں پاکستانی ہوا بازوں نے تو بھارتی فضائیہ کو تہس نہس کر دیا تھا لیکن امریکہ نے اپنے دیے جہاز بھارت کے خلاف استعمال کرنے  کے باعث  پاکستان پر پابندیاں لگا دی تھیں۔ پابندیوں کے بعد پاکستان کو اپنا دفاع مضبوط کرنے کے لیے  امریکہ سے ہٹ کر دیگر ممالک کی طرف دیکھنا پڑا۔ اس دور میں امریکہ کے مد مقابل ہتھیار روس بنا رہا تھا لیکن پاکستان اس کی طرف نہیں جا سکتا تھا کیونکہ پاکستان سیٹو اور سینٹو کا میمبر تھا۔ یہ وہ اتحاد تھے جو کہ امریکہ نے سوویت یونین کے خلاف کھڑے کیے ہوئے تھے۔ لہٰذا پاکستان کو چینی اور فرانسیسی جنگی طیارے خریدنے پڑے۔
چین سے پاکستان نے ایف سکس طیارے لیے اور فرانس سے معراج 3 اور معراج-5۔  
فرانس کے دیے معراج طیارے پاکستانی فضائیہ کو ایسے راس آئے کہ آج بھی اسے وقتاً فوقتاً وہ اڑا رہی ہے۔ ابھی تو 2019 میں انہیں پاکستان نے مصر سے پھر خریدا ہے۔ یہ ہمارے فضائیہ کے ٹیکنیکل سٹاف کی مہارت  ہے کہ وہ  خود ہی ان میں رد و بدل کر کے انہیں اڑانے کے قابل بنا لیتی ہے۔ بعض  دفاعی ماہرین کا تو  یہ بھی خیال ہے کہ پاکستان کے پاس صرف ان طیاروں  کے ذریعے ہی اپنے نیوکلیر ہتھیار لے  جانے کی صلاحیت ہے، ایف سولہ وغیرہ کے ذریعے نہیں۔  میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان ایف سولہ میں یہ اہلیت پیدا نہیں کر سکتا،  بلکہ وجہ یہ ہے کہ ایف سولہ میں امریکہ  کی اجازت کے بغیر کسی قسم کی ردوبدل  نہیں کی جا سکتی۔ یہ محض میرا خیال ہے۔ میں غلط ہو سکتا ہوں۔
 پہلی بار یہ جہاز پاکستان کو افغان جنگ میں کودنے  پر ملے تھے۔  کہنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان جب مجاہدین کو تربیت گاہوں میں تربیت دیا کرتا تھا تو روسی جہاز بمباری کیا کرتے تھے۔  پاکستان اپنے شہپر اور معراج طیاروں کے ذریعے ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا، تو امریکہ نے ان کی فراہمی کی اجازت دے دی تھی۔  پتہ نہیں اس بات میں کتنی حقیقت ہے۔ ہاں یہ ضرور سچ ہے کہ ایف سولہ پہلی بار 1982میں پاکستان فضائیہ کو ملے تھے۔ یہی دور افغان جنگ کا ہے، لہٰذا جو کہانی سنائی جا رہی ہے، قوی امکان ہے کہ سچ ہی ہوگی۔ پیس گیٹ 1 اور پیس گیٹ 2  کے تحت یہ چالیس ایف سولہ تو پاکستان کو مل گئے تھے لیکن بعد میں جن  اکہتر جہازوں کا پاکستان نے آرڈر دیا تھا وہ روک لیے گئے تھے۔ 1990- میں جب امریکہ کا مفاد نکل چکا تھا تو ان کی فراہمی اس نے پاکستان کو ہونے نہیں دی تھی۔ اٹھائیس تو ان میں سے بالکل تیار تھے۔ انہیں  وئیر ہاؤس میں بھجوا دیا گیا تھا جہاں وہ اگلے گیارہ برس پڑے رہےتھے۔ 2001 میں پاکستان امریکہ کا اتحادی بنا تو ان میں سے تئیس پاکستان کے حوالے کیے گئے۔  ان کے علاوہ بھی پاکستان نے ایف سولہ کے مختلف وئیرینٹس امریکہ سے خریدےتھے۔
اسی دور میں پاکستان مقامی طور پر چین کے ساتھ مل کر جے ایف سترہ تھنڈر کی تیاری شروع کر چکا تھا۔ جے ایف سترہ پاکستان کے پاس اس وقت سب سے جدید جہاز ہے۔  ابھی ابھی خریدے جے 10 سی سے بھی زیادہ یہ جدید  ہے۔  اب تک اس کے تین بلاک تیار کیے جا چکے ہیں۔ اس کے  تیسرے بلاک کے تو  آرجنٹینا سمیت چند دیگر ممالک سے آرڈر بھی  آئے ہیں۔  بہت سے ماہرین انہیں 4۔5 جنریشن کے جہازوں کی کیٹاگری میں سب سے بہتر کہتے ہیں۔ ہم  ان کی اہلیت تو آزما بھی چکے ہیں۔ ستائس فروری 2019 کوہمیں بھارتی ہوا باز ابھی نندھن کو چائے پلانے کا  موقعہ ملا تھا۔ خوب جشن منایا تھا ہم نے۔ منانا بھی چاہیے تھا۔
لیکن اب بھارت رفال طیارے خرید چکا ہے اور اپنے ملک میں ایس 400 مزائل سسٹم نسب کر چکا ہے۔ اس وقت تو ہم نے بھارتی جہاز کی  کمینیکیشن جام کر کے اسے  گھیر لیا تھا۔  اب ایس 400 کے ہوتے ہوئے کیا پھر ہمیں ایسا موقعہ ملے گا؟  یہ ایک بڑا سوال ہے۔ اس کا جواب تو مجھ جیسے لا علم شخص کے پاس نہیں۔ ہاں مجھے امید ہے کہ ہمارے دفاعی ماہرین اس پر خوب غور کر رہے ہوں گے۔

متعلقہ عنوانات