پہلو میں دل ہے درد کی دنیا کہیں جسے
پہلو میں دل ہے درد کی دنیا کہیں جسے
پر اس قدر اجاڑ کہ صحرا کہیں جسے
وہ رعب حسن تھا کہ بن آئی نہ ہم سے بات
یوں حال دل کہا کہ نہ کہنا کہیں جسے
آنکھوں سے دیکھنے کو تو اب بھی ہیں دیکھتے
تھی اور چیز ذوق تماشا کہیں جسے
مانند ماہ اس کا فلک پر دماغ ہو
جھوٹوں بھی تاب حسن میں تم سا کہیں جسے
سب آپ کے تغافل و جور و جفا بجا
ہے ایک اپنا شکوہ کہ بے جا کہیں جسے
ذوق سخن کے دن بھی تھے شاید وہی کہ جب
دل میں کسک تھی درد تمنا کہیں جسے
محرومؔ شاعروں میں بہت نامور نہیں
اتنا ضرور ہے کہ سب اچھا کہیں جسے