پہلوئے غیر میں دکھ درد سمونے نہ دیا
پہلوئے غیر میں دکھ درد سمونے نہ دیا
دامن وصل میں اک ہجر نے رونے نہ دیا
رنج یہ ہے کہ مرا درد سے مہکا ہوا تیر
اس وفا سوز نے پہلو میں کھبونے نہ دیا
عشق وہ شعلۂ سفاک ہے جس نے مجھ پر
آگ جاری رکھی اور راکھ بھی ہونے نہ دیا
تجھ کو تا ہجر رہا تھا مری وحشت سے گریز
اسی وحشت نے تری یاد کو کھونے نہ دیا
شرم آتی ہے بہت ایسی سبک دوشی پر
عشق کا بوجھ بھی اس زیست نے ڈھونے نہ دیا