پہلے ہوتا تھا نظر کے تیر سے

پہلے ہوتا تھا نظر کے تیر سے
کام اب ہوتا ہے وہ کف گیر سے


مل گئے تھے ایک دن تقدیر سے
بھاگتے ہیں اب نظر کے تیر سے


عشق اور پھر ہوٹلوں کی روٹیاں
بھاگتا پھرتا ہے رانجھا ہیر سے


شوخ تھا لپٹا ہماری پیٹھ سے
ہم چغد لپٹے رہے تصویر سے


وقت تھا دو چار بچے ہو گئے
اب نہ کچھ ہوگا کسی تدبیر سے


کون سی لائن کریں ہم اختیار
پوچھ آؤ اپنے اپنے پیر سے


جب ہوا کالے کا گورے سے ملاپ
مل گئیں تاریکیاں تنویر سے


آخرش بیوی نے شوہر سے کہا
آئیے کیا فائدہ تقریر سے