پہلا خطبہ

پھر اک جم غفیر
ایک میدان میں
آسماں کی طرف دیر سے تک رہا ہے!
امرأ القیس کی بیٹیاں
شاعری کی زباں پھر سمجھنے لگیں
لپلپاتی زبانیں
خطابت کا جادو جگانے لگیں
وہ خدا زادیاں مسکرانے لگیں
اور میلوں میں پھر بھیڑ بڑھنے لگی


کوئی منبر سے بولا
کہ اے میرے پیارو!
تمہیں اپنے اگلوں کی عمریں لگیں
باز آؤ سفر سے
کچھ آرام لو
قافلوں کی مدھر گھنٹیاں
ریت کے سلسلے
اس کی دیں گے گواہی تمہیں
ہم نے پہلے کہا تھا
گھروں میں رہو
تم نہ مانے تو اس کی سزا پا چکے
باز آؤ ابھی وقت ہے
بیکراں نیلی نیلی خلا
پھر نہ مسحور کر دے تمہیں