بحر الکاہل کے گہرے پانیوں پر قبضے کی جنگ کیسے لڑی جائے گی؟
بحر الکاہل دنیا کا سب سے بڑا پانی کا ذخیرہ ہے۔ اس کے ایک طرف امریکہ ہے جبکہ دوسری طرف ایشیا کی مختلف اقوام کے مابین اس کے پانیوں پر بالادستی کے لیے محاذ گرم ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں جنوبی کوریا، جاپان، چین اور آسٹریلیا سب نے اپنی بحری افواج بڑھا دی ہیں تاکہ وہ بحر الکاہل پر اپنا تسلط جما سکیں۔
بحر الکاہل کی سطح تلے مچھلی ،قدرتی تیل اور گیس کا ایک بڑا ذخیرہ ہے جس کا ایک بڑا حصہ ابھی دریافت ہونا ہے اور اس سے فائدہ اٹھایا جانا ہے۔ یہ غیر معمولی دولت ان چھوٹے چھوٹے جزیروں کی ملکیت ہے، جو اب تک غیر آباد پڑے ہیں۔ ان غیر آباد جزائر پر قبضہ جو بھی ملک کرے گا، یہ تمام سمندر اور اس کی دولت بھی اسی کی ملکیت ہو جائے گی۔
ایسی دنیا میں جہاں آبادی بڑھ رہی ہے، وسائل کم ہو رہے ہیں اور صنعت کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے، ان وسائل کی ملکیت کسی بھی ملک کی لمبے عرصے تک کی خوشحالی کی ضامن ہو سکتی ہے۔ اسی لیے ان وسائل پر قبضے کی دوڑ میں بھی تیزی سے اضافہ ہو گیا ہے۔
جیسے ہی چین نے بحر الکاہل میں اپنی موجودگی بڑھانا شروع کیا ہے ، ویسے ہی ہتھیاروں کی دوڑ بھی شروع ہو گئی ہے اور نئے تذویراتی اتحادوں نے علاقے کی صورتحال کو بدلنا شروع کر دیا ہے۔ چین کی اگر بات کریں تو یہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور سب سے بڑی آبادی ہے۔ اسے خوراک اور ایندھن کے نئے ذخائر ڈھونڈنا ہیں، اگر اسے اپنی صنعتیں رواں دواں رکھنی ہیں اور اپنے ملک میں سیاسی استحکام برقرار رکھنا ہے۔ چین کا اس وقت مچھلیوں کے شکار کی مہمات کا بحری بیڑا دنیا میں سب سے بڑا ہے۔ اس میں سترہ ہزار کشتیاں ہیں۔ اس کے بیڑے کے سامنے اس کے ہمسایوں جاپان اور آسٹریلیا کے بیڑے مشترکہ طور پر بھی اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔ ان دونوں ممالک کے بیڑوں میں مشترکہ طور پر صرف پچیس سو کشتیاں ہیں۔
چین کے پاس صرف یہ بحری بیڑہ نہیں ہے بلکہ اس کے تجارتی راستوں کو محفوظ بنانے اور طاقت کے اظہار کے لیے دنیا کی سب سے بڑی بحریہ بھی اسی کے پاس ہے۔
دوسری طرف اس کے مخالف امریکہ کے پاس سب سے زیادہ آب دوزیں اورایئرکرافٹ کیریئر یعنی بحری بیڑے ہیں۔ ان کیریرز پر نوے طیارے رکھے جا سکتے ہیں اور ان پر ہوائی اڈے ہیں جو کہ سخت حفاظتی حصار میں موجود ہیں۔ دہائیوں کی جنگی مہارت رکھنے کے باعث، امریکی بحریہ واقعی بہت خطرناک ہے۔ اس کی آب دوزوں پر موجود بلسٹک مزائل کی طاقت اتنی ہے کہ وہ دنیا بھر میں زندگی کو مٹا سکتی ہے۔ اس کی انڈو پیسفک کمانڈ جو کہ ہوائی میں موجود ہے کی ذمہ داری میں سان فرانسسکو سے لے کر صومالیہ کی بندر گاہ تک کا علاقہ ہے۔ یہ زمین کا تقریباً نصف حصہ بنتا ہے۔
چین جو بحرالکاہل میں بڑھتا جا رہا ہے، اس کے بڑھتے اثر رسوخ نے گردونواح کے ہمسایوں کو پریشان کر دیا ہے۔ جارحانہ بحری گشتیں اور چینی فضائیہ کی جانب سے متنازعہ علاقوں پر سے پروازیں اشتعال انگیز سمجھیں جا رہی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے جزائر، جو کہ اکثر مشکل سے ہی آباد ہیں، اس ضمن میں چین اور اس کے ہمسایوں کے مابین جھگڑے کی وجہ بنتے جا رہے ہیں۔ یہ تناؤ سب سے زیادہ جنوبی چین کے سمندر میں ہے۔ چین پانی میں جس بڑے علاقے پراپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے، اسی پر فلپائن، ویتنام، انڈونیشیا اور برونائی بھی دعویٰ کرتے ہیں۔ اس علاقے کے سمندری راستوں سے ہو کر دنیا کی تقریباً سات فیصد کی تجارت ہوتی ہے۔اسی وجہ سے یہ تزویراتی طور پر بھی اہم علاقہ بن جاتا ہے۔ اس علاقے میں تمام اہم جزائر جن میں شمال کے اندر پیراسل آئیلینڈز اور جنوب میں سپراٹلی آئلینڈ شامل ہیں، تمام پر چین کی جانب سےملکیت کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ اپنے اس دعوے کو قانونی غلاف پہنانے کے لیے چین نے سی بیڈ سے ریت اور پہاڑی ٹکڑے لے کر قابل آباد نئے جزائر بنائے ہیں جن پر ریڈار اور میزائل بیٹریز بھی نسب کی ہیں۔ان میں سے کچھ جزائر ہوائی اڈے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، جن پر تین ہزار سے زائد رن وے موجود ہیں۔چین اپنے مخالفین کو ڈرانے کے لیے بھاری بھرکم بحری بیڑے متنازعہ علاقوں میں بھیجتا ہے جو کہ مخالفین کو اپنی بھاری موجودگی سے خوفزدہ کرتے ہیں اور کبھی کبھار جارحانہ اقدامات بھی کرتے ہیں۔چین کے انہی جارحانہ اقدامات کے باعث ، اس کے ہمسائے پریشان ہیں اور پیسفک کے علاقے میں اسلحے کی دوڑ پورے جوبن پر ہے۔
جاپان بڑی احتیاط سے اپنے پر امن آئین سے دور جاتا جا رہا ہے۔ وہ خاموشی سے اپنی مسلح افواج اور ملٹری انڈسٹریل کمپلکس تیار کر رہا ہے۔ اس نے حالیہ ہی دنیا کی جدید ترین آبدوزیں تیار کی ہیں۔ ان کی آب دوزیں بہت لمبے عرصے تک پانی کے اندر رہ سکتی ہیں اور جدید ترین سینسرز اور ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔ جاپان کے ہیلی کاپٹر کیریر ہلکےائیر کرافٹ کیریئرزمیں تبدیل کر دیے گئے ہیں جو کہ ایف 35 جنگی جہازوں کو اٹھا سکتے ہیں۔ امریکہ نے جاپان کے لیے 105 ان جدید ترین جہازوں کا آرڈر قبول کیا ہے۔ جاپان لمبی رینج کے اینٹی شپ میزائل بھی خرید رہا ہے۔ یہ میزائل اس کو مستقبل میں کسی بھی تنازعے کی صورت میں فائدہ دے سکتے ہیں اور اسے خطرے کی صورت میں پیشگی حملے کی اہلیت بھی دیتے ہیں۔ جاپان کی یہ سوچ اس کی دفاعی پالیسی میں ایک بڑا شفٹ ہے۔ جاپان اور تائیوان نے ایک دوسرے کی مدد کرنے کے عزم کا بھی اعادہ کیا ہے، اگر چین حملہ کرتا ہے۔ جاپان چین کے ساتھ کئی جزائر پر بھی تنازع رکھتا ہے۔ اگر چین ان جزائر پر پرواز کر کے حق جتاتا ہے تو جاپان بھی ان جزائر کے گرد گشت کر کے جواب دیتا ہے۔ دونوں طاقتیں ایک دوسرے کو خوب آنکھیں دکھاتی ہیں۔
بحر الکاہل میں صرف چین نہیں ہے جو جاپان کو اپنے دفاع کو مضبوط کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ اس کا روس کے ساتھ بھی تنازع ہے۔ جاپان اس رقبے پر اپنا دعویٰ کرتا ہے جسے وہ اپنی شمالی زمین قرار دیتا ہے۔ اسی طرح ان چار جنوبی جزائر پر بھی دعویٰ کرتا ہے جسے روس کورل آئی لینڈز کہتا ہے۔ ان جزائر کو سوویت یونین نے دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان سے لیا تھا اور آج تک ان پر اپنی حاکمیت کا دعویٰ کرتا ہے۔
اسی طرح جاپان کے جنوبی کوریا کے ساتھ بھی جزائر کی ملکیت پر بھی تنازعات ہیں۔
جاپان سے ہٹ کر جنوبی کوریا بھی خود کو تیزی سے مسلح کر رہا ہے۔ پچھلے سال اس نے ایسی آب دوز تیار کی تھی جو کہ بلسٹک میزائل فائر کر سکتی ہے۔ یہ اپنے کروز میزائل بھی تیار کر رہا ہے۔ تائیوان بھی اپنی اسلحے کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ تمام اسلحے کی دوڑ بحر الکاہل میں محاذ کو گرم کرتی جا رہی ہے۔