پاس وفا

دل ہے رنجور یہاں
ہے یہ دستور یہاں
رہرو آتے ہیں یہاں
لوٹے جاتے ہیں یہاں
نہ کوئی پاس وفا
اور نہ احساس وفا
کرتے ہیں جور و جفا
ظلم ہے ان کو روا
کچھ بھروسہ ہی نہیں
کوئی اپنا ہی نہیں
اجنبی بن کے رہیں
ہر جفا دل پہ سہیں
روز بیداد نئی
روز افتاد نئی
کیا کریں حال بیاں
بیکسی کا ہے سماں
حال دل کچھ نہ کہیں
روز بیداد سہیں
ہر طرف آہ و بکا
اک قیامت ہے بپا
تنگ ہے تیری زمیں
کوئی کس جا ہو مکیں
تو سہارا ہے خدا
بس بھروسا ہے ترا
حال ہے ان کا برا
سن یتیموں کی صدا
بیوہ ماؤں کی قسم
سخت جانوں کی قسم
یہ شہیدان وفا
جن کا گھر بار جلا
کبھی مختار یہ تھے
آج مجبور ہوئے
پائے اب جا کے کہاں
دل ناشادؔ اماں