پانچ دن کو جو یہاں پر آ گیا

پانچ دن کو جو یہاں پر آ گیا
مثل گل دو روز میں کمھلا گیا


زندگی پھسلا کے لے آئی مجھے
کون ظالم اس جگہ بہلا گیا


کیوں چھٹا کر ایک عدم کے عیش کو
دوسرا کوئی عدم دکھلا گیا


ہستئ موہوم پر جو غور کی
دوستو بے طرح جی گھبرا گیا


پیشتر مرنے سے مرنا خوب ہے
جو کہ یہ سمجھاؤ وہی کچھ پا گیا


آہ اس دل نے نہ مانی ایک بات
ناصحا سو طرح سے سمجھا گیا


''اہل دنیا کافران مطلق اند''
مثنویٔ روم یہ فرما گیا


ذق ذق‌ و بق بق کو اب تو چھوڑ دے
طفلگی برنا کا سب جھگڑا گیا


شیب آیا اب تو افریدیؔ سمجھ
کیا بھروسہ دم کا ہے آیا گیا


کچھ کھلا لے کھا لے لے جانا نہیں
جو گیا ہے یاں سے سو تنہا گیا


کون ہے وہ فقیر و بادشاہ
جو کف افسوس نہیں ملتا گیا


حسرت‌ و رنج و الم غم کے سوا
کوئی یاں سے واں کے تئیں لے کیا گیا


آفریدیؔ یاں سدا رہنا نہیں
جو گیا ہے وہ یہی کہتا گیا