پائے ہوئے اس وقت کو کھونا ہی بہت ہے
پائے ہوئے اس وقت کو کھونا ہی بہت ہے
نیند آئے تو اس حال میں سونا ہی بہت ہے
اتنی بھی فراغت ہے یہاں کس کو میسر
یہ ایک طرف بیٹھ کے رونا ہی بہت ہے
تجھ سے کوئی فی الحال طلب ہے نہ تمنا
اس شہر میں جیسے ترا ہونا ہی بہت ہے
ہم اوڑھ بھی لیتے ہیں اسے وقت ضرورت
ہم کو یہ محبت کا بچھونا ہی بہت ہے
اگتا ہے کہ مٹی ہی میں ہو جاتا ہے مٹی
اس بیج کا اس خاک میں بونا ہی بہت ہے
خوش حال بھی ہو سکتا ہوں میں چشم زدن میں
میرے لیے اس جسم کا سونا ہی بہت ہے
اپنے لیے ان چاند ستاروں کو سر شام
اس شاخ تماشا میں پرونا ہی بہت ہے
پہلے ہی بہت خاک اڑائی ہے یہاں پر
میرے لیے اس دشت کا کونا ہی بہت ہے
دریا کی روانی کو ظفرؔ چھوڑیئے فی الحال
تھوڑا سا یہ ہونٹوں کو بھگونا ہی بہت ہے