اور یوں ہم جیت گئے
اور یوں ہم جیت گئے۔
دلی خواہش تھی کہ 10 وکٹوں سے جیت ملے لیکن ہر خواہش کہاں پوری ہوتی ہے، 8 وکٹوں سے جیت بھی شاندار رہی۔
فتح کی مبارک تو کل ایڈوانس میں ہی دے دی تھی کیونکہ دونوں اوپنرز کھیل ہی شاندار رہے تھے اور مجھے لگتا تھا کہ دوسروں کی باری نہیں آئی گی، لیکن آج صبح اچھے آغاز کے بعد پہلے عبداللہ شفیق 73 رنز بنا کر اور پھر عابد علی 91 رنز بنا کر نروس نائنٹیز کا شکار ہوئے، سنچری کر لیتے تو یہ ٹیسٹ اور بھی یادگار بنا لیتے، چلیں یہ کارکردگی بھی شاندار تھی دونوں اوپنرز کی اور یہی فرق ثابت ہوئی دونوں ٹیموں کے درمیان۔
اوپنرز کی شاندار کارکردگی دونوں اننگز میں، حسن علی کا پہلی اننگ کا اسپیل اور شاہین شاہ آفریدی کا دوسری اننگ کا خطرناک اسپیل اس ٹیسٹ میچ کے یادگار لمحات ہیں جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
لیکن کچھ چیزیں غور طلب اور تشویشناک بھی ہیں جو جیت کے بعد نظر انداز بالکل نہیں کرنی چاہئیں۔
پہلی اننگ میں مڈل آرڈر بیٹنگ لائن کا فیل ہونا
کپتان بابر اعظم کا سلو پِچز پر مسلسل جدوجہد کرنا
لیفٹ آرم سپنر کا پورے میچ میں ایک وکٹ بھی نہ لینا
پہلی اننگ میں 146 رنز کے بہترین آغاز کے بعد ایک اچھی سپورٹنگ وکٹ پر پوری ٹیم کا 286 رنز پر آؤٹ ہو جانا بھی تشویش ناک تھا، پاکستانی بلے باز ایک بار پھر لیفٹ آرم سپنر کے سامنے بے بس نظر آئے ،حالانکہ ایسا ہونا بنتا نہیں تھا۔
مجھے لگتا ہے کہ بہت زیادہ دفاعی کھیلنا اور غیر ضروری طور پر بیک فٹ پر کھیلنا بلے بازوں کی ناکامی کی وجوہات تھیں اور کچھ لیفٹ آرم سپنر کے سامنے ہمارے بلے بازوں کی تکنیک بھی زیادہ اچھی نہیں رہتی۔
کپتان بابر اعظم بھی پہلی اننگ میں بہت زیادہ بیک فُٹ پر جاتے رہے، جن بالز پر لمبی ٹانگ نکال کر کور میں کھیلا جا سکتا تھا اُن بالز پر بھی بیک فُٹ پر کھیلتے رہے اور باؤلر کو اپنے اوپر حاوی ہونے دیا۔
دوسری اننگ میں جہاں دباؤ بالکل نہیں تھا وہاں بھی شروع میں ڈبل مائینڈڈ کھیلے، ہاف شارٹ کھیل رہے تھے چانس بھی ملا اور ایک بار پھر بیک فُٹ پر چلے گئے۔
اُن کی دونوں اننگز میں اعتماد کی بہت زیادہ کمی تھی جس کی وجہ سے باؤلر اُن پر حاوی ہو گئے۔
اگلے میچ میں اُنہیں فرنٹ فُٹ پر زیادہ کھیلنا چاہیے اور اپنے نیچرل سٹروک پر اعتماد کرنا چاہیے۔
لیفٹ آرم سپنر نعمان علی دونوں اننگز میں وکٹ لیس رہے جہاں بنگلہ دیشی سپنر تیج الاسلام نے 8 وکٹیں لیں وہیں نعمان علی ایک وکٹ بھی نہیں لے سکے۔
مجھے ذاتی طور یہی لگا کہ نعمان نے پہلی اننگ میں اچھی گیند بازی کی لیکن لٹن داس اور مشفق الرحیم بہت اچھا کھیلے سپنرز کو۔
اور دوسری اننگ میں نعمان علی اچھی لائن و لینتھ پر باؤلنگ نہیں کروا سکے اور زیادہ کھنچی ہوئی باؤلنگ کرتے رہے جو غیر ضروری تھا اس ٹریک پر۔ اور کچھ کھبے بلے بازوں نے بھی نعمان کو وکٹ لینے سے محروم رکھا۔
میرا تو یہی خیال ہے کہ اگلے ٹیسٹ میچ میں بھی نعمان علی کو ہی موقع دیا جائے کیونکہ وہ اچھے باؤلر ہیں اور کم بیک کر سکتے ہیں۔
باقی اگر انتظامیہ محمد زاہد کو آزمانا چاہیں تو وہ بھی اچھے لیگ سپنر ہیں موقع ملنے پر مایوس نہیں کریں گے۔
آخر میں بس اتنا ہی کہ کسی موقع پر یہ نہیں لگا کہ ہماری ٹیم اس ٹیسٹ میچ میں بیک فُٹ پر ہے۔ ہمارے پاس دنیا کے بہترین فاسٹ باؤلرز تھے جن کا ایک اسپیل میچ کا پانسہ پلٹ دیتا ہے اور یہی ہوا۔
حسن علی نے پہلی اننگ کے دوسرے دن اور شاہین شاہ آفریدی نے دوسری اننگ میں یہ کر کے دکھایا، اور اوپنرز نے دونوں اننگز میں شاندار کارکردگی دکھائی اور ہم جیت گئے۔