آپریشن بلو اسٹار، خالصتان تحریک کا پر آشوب باب
تاریخ میں ایسا کم ہی دیکھا گیا ہے کہ کوئی ریاست اپنے ہی شہریوں کو ان کے مطالبات کی وجہ سے مسلح فوج کے ذریعے کچلنے آ جائے اور پھر بربریت کی وہ داستانیں رقم کرے کہ بھڑکتی جنگ کے دوران گرتی لاشیں بھول جائے۔ لیکن بھارت کی تاریخ میں آپریشن بلوسٹار ایک ایسا ہی آپریشن ہے، جب ریاستی جارحیت کے سب ریکارڈ ٹوٹ گئے۔
آپریشن بلیو سٹار ایک ہندوستانی فوجی آپریشن تھا جو 3 سے 8 جون 1984 کے درمیان علیحدگی پسند سکھوں کے خلاف ہوا۔ اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اس کا حکم دیا اور یہ آپریشن جرنل کلدیپ سنگھ برار کی قیادت میں انجام دیا گیا۔ اندرا گاندھی نے پنجاب کے شہر امرتسر میں سکھوں کی سب سے مقدس عبادت گاہ ہرمندر صاحب (گولڈن ٹیمپل) کمپلیکس پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اور جرنیل سنگھ بھنڈران والے اور اس کے مسلح پیروکاروں کو کمپلیکس کی عمارتوں سے گرفتار کرنے کے لیے یہ آپریشن ترتیب دیا تھا۔ بھنڈران والے نے ہرمندر صاحب میں رہائش اختیار کی ہوئی تھی اور اپریل 1980 میں اسے اپنا ہیڈکوارٹر بنایا تھا۔ بھنڈرانوالے واحد رہنما تھے جو سکھوں کے حقیقی حقوق کے لیے دلیری سے لڑ رہے تھے۔ اس آپریشن مین ہندوستانی فوج نے، فوجیوں اور بکتر بند گاڑیوں کی مدد سے، ریاستی دہشت گردی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ بہت سے سکھ مذہبی ظلم و ستم سے بچنے کے لیے ہندوستان چھوڑ گئے۔ اب خالصتان کی تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے سکھ پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی جدوجہد اب بھی جاری ہے۔
تاہم، اس وقت، جب یہ آپریشن بلو سٹار کیا گیا، ہرمندر صاحب کی حفاظت کے لیے اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس تربیت یافتہ ہندوستانی فوج کے خلاف مزاحمت کے لیے کمپلیکس کے اندر صرف 251 سکھ تھے۔ ان دنوں سکھوں کی اکثریت گرو ارجن دیو کی یاد منانے کے لیے مندر کے احاطے میں آ رہی تھی۔
بھارتی حکومت نے ٹینکوں کا استعمال کیا اور ہرمندر صاحب کے بالکل سامنے واقع اکال تخت صاحب کو تباہ کر دیا۔ 6 جون کو جب تمام سکھ جنگجوؤں کو جرنیل سنگھ بھنڈراںوالے کے ساتھ ہلاک کر دیا گیا تو بھارتی فوجی اپنے جوتے لے کر مندر کے احاطے میں داخل ہوئے، اس جگہ کے تقدس کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہوئے، سراسر بے حیائی کا مظاہرہ کیا۔ جب بھارتی فوج کو لگا کہ صرف 251 آدمیوں نے انہیں اتنے دنوں تک ہرمندر صاحب میں داخل ہونے سے روکا ہے تو انہوں نے بے گناہ سکھوں کو مارنا شروع کر دیا جو وہاں مندر کی زیارت کے لیے آئے تھے۔ مقصد صرف اپنی تذلیل کو چھپانا تھا۔
اس سلسلے میں اپنی کتاب دی سکھ اسٹرگل (The Sikh Struggle) میں رام نرائن کمار اور جارج سیبرر لکھتے ہیں، فوج نے ہر اس سکھ کو مار ڈالا جو مندر کے احاطے میں موجود تھا۔ انہیں کمروں سے باہر نکالا گیا، مندر کے طواف پر راہداریوں میں لایا گیا اور ان کے ہاتھ ان کی پیٹھ کے پیچھے باندھ کر بڑی بے رحمی سے گولی مار دی گئی۔ متاثرین میں بوڑھے مرد، عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سے زائرین کو بغیر کسی کھانے، پانی، یا بجلی کے دو دن تک کمروں میں بند کر دیا گیا جہاں وہ بھوک سے مر گئے۔ اس کے علاوہ ہرمندر صاحب کئی مہینوں تک فوج کے کنٹرول میں رہا۔
آپریشن بلیو اسٹارکی بربریت صرف ہرمندر صاحب تک محدود نہیں تھی۔ ہندوستانی مسلح افواج نے بیک وقت مشرقی پنجاب میں 40 دیگر تاریخی گوردواروں پر حملہ بھی کیا۔
جب دوسری ریاستوں میں سکھوں کو ہرمندر صاحب کی بے حرمتی اور اپنے بھائیوں کے قتل عام کا علم ہوا تو وہ پنجاب پہنچنے لگے۔ نئی دہلی نے انہیں پنجاب پہنچنے سے پہلے ہی روکنے کی کوشش کی۔ بہت سے سکھوں کو راستے میں قتل کر دیا گیا اور بہت سے لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
ایک اندازے کے مطابق چند ہی دنوں میں تقریباً 50,000 سکھ مارے گئے۔ پورے امرتسر شہر کو سیل کر کے جلا دیا گیا۔ کئی سیاحوں کو یا تو قتل کیا گیا یا گرفتار کر لیا گیا۔ ہندو ہجوم نے سکھوں کی دکانوں کو لوٹ لیا اور ان کے گھروں کو نذر آتش کر دیا۔ زیادہ تر واقعات میں سکھ خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی گئی اور ان کی برادری کے کچھ افراد کو بھی جلا دیا گیا۔
آپریشن کی ایک اور المناک جہت یہ ہے کہ سکھوں کے تاریخی نمونے بشمول گروؤں کے لکھے ہوئے تمام لٹریچر کو بھی بھارتی فوج نے نذر آتش کر دیا۔ لیکن نئی دہلی نے یہ دعویٰ کر کے جھوٹی کہانی گھڑ لی کہ یہ ہرمندر صاحب پر بمباری کے دوران جل گئے تھے۔
اسی سال نومبر میں، بےانت سنگھ اور ستونت سنگھ نامی دو سرشار سکھوں نے، جو وزیر اعظم اندرا گاندھی کی رہائش گاہ پر تعینات پولیس اہلکار تھے، انہیں قتل کر دیا۔ اس کے بعد دارالحکومت اور دیگر شہروں میں سکھ ہندو فسادات پھوٹ پڑے جس میں اندرا گاندھی کے حامیوں کے ہاتھوں 15000 سے زیادہ سکھوں کو دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا، جب کہ پولیس خاموش تماشائی بنی رہی تاکہ ہندوؤں کو سکھوں کے قتل عام کے لیے پورا موقع فراہم کیا جا سکے۔
اس کے باوجود، ہرمندر صاحب پر حملے اور سکھوں کی نسل کشی نے خالصتان کی آزادی کی تحریک کو تیز کر دیا کیونکہ بھنڈرانوالے ایک لوک ہیرو بن گئے تھے۔
اس دوران آپریشن بلیو سٹار اور سکھوں کی نسل کشی کے بعد سکھوں کی جدوجہدِ آزادی جاری رہی لیکن بھارتی حکومت نے ریاستی مشینری کی مدد سے اسے کچلنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ہرمندر صاحب پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے، 1987 میں مندر پر ایک اور حملہ کیا گیا، جسے آپریشن بلیک تھنڈرکہا گیا۔
اس بار صرف سکھ مزاحمت، جو اس سانحے کا فطری نتیجہ تھی، اصل ہدف تھی۔ اسی سلسلے میں کمیونٹی کے کافی لوگ مارے گئے اور لاشیں کئی دنوں تک مقدس مقام کے اندر پڑی رہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق کئی ٹرک لاشوں سے لدے ہوئے تھے اور سب کو مٹی کے تیل سے جلا دیا گیا ۔ اس کے بعد سکھ برادری کے خلاف آپریشن ووڈروز اور آپریشن بلیک تھنڈر-2 کیے گئے، جس میں انہیں ماورائے عدالت قتل بھی کر دیا گیا۔
ان وحشیانہ کارروائیوں کے بعد سکھوں نے خود کو ایک مسلح طاقت کے طور پر منظم کیا تاکہ بھارتی ریاستی دہشت گردی کا مقابلہ کیا جا سکے۔ بہت سے سکھ مذہبی ظلم و ستم سے بچنے کے لیے ہندوستان چھوڑ گئے۔ خالصتان کی تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے سکھ پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی جدوجہد اب بھی جاری ہے۔
31 اکتوبر 2021 کو برطانیہ میں ہونے والا استصواب رائے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔