افریقہ سے اومی کرون کا خاتمہ کیسے ہورہا ہے؟
اس وقت دنیا کے اکثر ممالک کرونا کے تیزی سے پھیلتے ہوئے ویرینٹ ڈیلٹا اور اومی کرون کا سامنا کررہے ہیں ۔ او می کرون کے بارے میں جہاں یہ کہا جارہا ہے کہ یہ اب تک سب سے تیزی سے پھیلنے والا کرونا ویرینٹ ہے، وہیں بہت سے وائرولوجسٹ یعنی وائرس پر کام کرنے والے ماہرین اور ڈاکٹرز اس حوالے سے پرامید ہیں کہ اومی کرون سے ہونے والی اموات کی انتہائی کم شرح یہ ظاہر کررہی ہے کہ اب کورونا وبا اپنا اختتام کے طور پر ہے۔
کورونا کے نئے ویرینٹ اومی کرون کا آغاز چند ماہ پہلے جنوبی افریقہ سے ہوا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس ویرینٹ نے افریقہ، ایشیا اور یورپ کے بہت سے ممالک کو تیزی سے اپنے گرفت میں لے لیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں کم از کم پچپن لاکھ افراد کورونا کے اس نئے ویرینٹ کا شکار ہیں، لیکن اب گزشتہ ہفتے کی اطلاعات کے مطابق کم از کم جنوبی افریقہ میں اومی کرون کی وبا ختم ہونے کے قریب ہے اور اب ماہرین کے مطابق یہ ایک مقامی بیماری میں تبدیل ہوتی جارہی ہے جس کا علاج آسان ہے ۔
جنوبی افریقی ماہر وائرولوجسٹ وولف گینگ پریزر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ اومیکرون کے رویے سے امید پیدا ہوتی ہے کہ اب یہ وائرس وبائی بیماری مقامی شکل اختیار کر لے گا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اب مقامی لوگوں میں اس وائرس کے خلاف مدافعت پیدا ہورہی ہے اور اندازہ ہے کہ اب اومیکرون کی وبا ہمارے ہاں زیادہ پریشانی پھیلانے کا باعث نہیں بنے گی۔
ایک اور افریقی ملک گھانا کے وبائی امراض کے ماہر فریڈ بنکا نے اپنے ایک انٹرویو میں اسی طرح کی بات کی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ظاہر ہے کہ وبائی مرض کا خاتمہ ہو رہا ہے، وائرس اب خود کو قائم کر چکا ہے، اور یہ مقامی ہو گا اور ہمیشہ کے لیے یہاں رہے گا۔ انہوں نے پیش گوئی کی کہ COVID-19 ایک عام وائرس بن جائے گاجس کے ساتھ ہم رہ سکتے ہیں اور علاج کر سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ افریقہ دنیا بھر میں سب سے کم ویکسین والا براعظم ہے، جہاں ابھی تک صرف 7 فیصد افراد کی ویکسی نیشن ہوسکی ہے۔ افریقی ماہرین کی اس تحقیق کے باوجود ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، ہلکے Omicron ویرینٹ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دنیا ابھی خطرے کے زون سے باہر ہے۔ادارے کے مطابق افریقہ کے علاوہ ابھی دیگر ممالک او ردنیا کے اکثر خطوں میں اومی کرون کیسز میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور ابھی وہ وقت دور ہے جب یہ کہا جاسکے کہ اومی کرون کی وبا اپنا عروج حاصل کرکے زوال کی طرف جانا شروع ہوچکی ہے۔ جب تک یہ نہیں ہوتا، تب تک احتیاط اور ویکسی نیشن کی ضرورت مسلسل رہے گی۔