عمر خالد خراسانی کی ہلاکت: بین الاقوامی ایجنسیوں کا دعویٰ اور حقیقت
حالیہ کچھ دنوں میں افغانستان میں امریکہ مخالف افراد ہلاکتوں کی خبریں تیزی سے آرہی ہیں۔ ابھی چند دن پیشتر القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی ہلاکت اس سلسلے کی ایک بڑی خبر تھی۔ ایسی ہی ایک اور ہلاکت کی خبر مزید آئی ہے۔
مختلف بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیوں کی خبر کے مطابق 7 اگست کی شام ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈر اور پاکستان کے آرمی پبلک سکول کے سانحے کے ماسٹر مائنڈ عمر خالد خراسانی افغانستان کے صوبہ پکتیکا میں اس وقت ہلاک ہوگئے جب ان کی گاڑی ایک بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی۔ ذرائع کے مطابق ان کے ساتھ دو مزید اہم ٹی ٹی پی کمانڈرز بھی موجود تھے جن کے نام حافظ دولت اور کمانڈر مفتی حسن ہیں۔
خبر کے مطابق کالعدم ٹی ٹی پی کے تینوں کمانڈرز افغانستان کے صوبے کنڑ میں مقیم تھے اور مذاکرات کے لیے برمل گئے تھے جہاں سے واپسی پر ان کی گاڑی بارودی سرنگ کے حادثے کا شکار ہوگئی۔
مختلف ذرائع اس بات کا دعویٰ کررہے ہیں کہ یہ عمر خالد خراسانی وہی شخص تھے جنھوں نے 2014 میں پشاور میں واقع آرمی پبلک سکول پر خود کش حملے کو ڈیزائن کیا تھا۔اس سال 16 دسمبر کوصوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں واقع آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس)پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں نے حملہ کرکے وہاں موجود طلبہ اور اساتذہ کو نہ صرف یرغمال بنایا بلکہ ان پر فائرنگ کرکے طلبہ سمیت 140 سے زائد افراد کو شہید کردیا تھا۔ یہ سانحہ پاکستان کی قومی تاریخ کا ایک بڑا سانحہ گردانا جاتا ہے۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے اس واقعے کی تصدیق البتہ اب تک نہیں کی گئی۔ نیز اس حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ خالد خراسانی نام کے اب تک تین سے چار ٹی ٹی پی کمانڈرز مختلف حملوں میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دراصل خالد خراسانی کی اصطلاح ٹی ٹی پی میں اہم کمانڈرز کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور یہ کسی کمانڈر کا اصل نام نہیں ہوتا۔ یعنی یہ کوئی عہدہ یا ٹائٹل ہے اور اس عہدے پر موجود ایک کمانڈر کی موت کے بعد دوسرے شخص کو خالد خراسانی کا لقب یا ٹائٹل دے دیا جاتا ہے۔
اس سے قبل 2017 میں بھی پاکستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں خالد خراسانی نامی ایک کمانڈر کی ہلاکت کی تصدیق طالبان کے احرار گروپ کی جانب سے کی گئی تھی۔