آکٹوپس
اب اسے اپنا ہر قدم اکھاڑنا پڑ رہا تھا جیسے وہ کیچڑ میں بھاگ رہا ہو۔ سپورٹس شوز میں پیک شدہ پاؤں وزنی ہو رہے تھے۔ بدن آگے نکلتا مگر پاؤں گھسٹتے پیچھے رہ جاتے، دندان سازکے شوکیس میں رکھی بتیسی بھنچی ہوئی، دماغ کے خلیوں کو ایس۔ او۔ ایس بھیجا ہوا۔۔۔ صرف چند قدم اور۔۔۔ اذیت کے چند لمحے اور تمہارا پورا چکر مکمل ہوجائے گا۔ تم ورزش کے لیے ہر صبح اس باغ کے گرد لپٹی ہوئی سڑک پر سستی سے دوڑتے ہو، پچھلے کئی برسوں سے، ہر روز چکر مکمل ہو جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ آج نہیں ہوگا مگر ہمیشہ ہو جاتا ہے۔ آج بھی یہ چکر مکمل کرنا ہے۔ تاریکی ہے مگر تمہیں اس سے غرض، پاؤں اپنا رستہ پاتے ہیں۔۔۔ صرف چند قدم اور۔۔۔ شاباش۔ گردن کے بالوں سے لٹکتے چھوٹے چھوٹےآبی لنگور پشت پر چھلانگیں لگا رہے تھے، پسینے کے بلبلے ماتھے سے پھوٹ رہے تھے۔ ناک پر دھار بہہ رہی تھی۔۔۔ چند قدم اور۔
اور وہ اندھیرے میں قدم گھسیٹتا بھاگتا رہا۔
تاریکی کا دھواں ابھی تحلیل نہیں ہوا تھا۔
درخت، پتے، پودے، گھاس سیاہی میں ملفوف گمنام تھے۔
ایک کنکر پاؤں تلے آیا اور اس کی ٹانگیں مسمار ہوتے ہوتے بچیں۔ عبور کے راستے میں چھوٹی سی رکاوٹ اور بدن کا کچا گھڑا تھکاوٹ کے پانیوں میں گھلنے لگا۔۔۔ چند قدم اور۔۔۔ اس کے کانوں میں فوارے کا مدھم بہاؤ اترا۔ کلب کی عمارت کے سامنے وہ فوارہ تھا جہاں سے بیس منٹ پیشتر وہ سپورٹس شوز پر تیرتا ہوا نکلا تھا، چکر ختم ہونے کو تھا، شاباش صرف دس بارہ قدم اور۔۔۔ ایک۔۔۔ دو۔۔۔ تین۔۔۔ چار۔۔۔ پانچ۔۔۔ چھ۔۔۔ ساتویں قدم نے اس کے پاؤں پکڑے۔ وہ لڑکھڑایا اور رہوڈز کے مجسمے کی طرح اکڑوں حالت میں منہ کے بل گرنے لگا۔۔۔ وہ، ڈوبنے لگا۔ گہرائی میں اترتا بیٹھتا چلا گیا۔
آکٹوپس اپنا سیاہ جال پھیلائے منتظر تھا۔
اس کے بدن پر سرسراتے ہوئے بے چین فیتے کسے جانے لگے۔ ہزاروں زبانیں مساموں میں اتریں اور پیاس بجھانے لگیں۔۔۔ جونکوں کا جال بچھ رہا تھا۔ ٹانگوں اور بازوؤں کے گرد دائرے گھونٹنے کے بعد اس کی گردن پر سیاہ مفلر لپٹے اور اس نے منہ کھول کر زبان باہر نکال دی۔ بدن پر مکمل گرفت کے باوجود آکٹوپس اس کے منہ پر اپنی پلاسٹک ہتھیلی چپکانے میں ناکام ہو رہا تھا، وہ اس کی زبان سے خوف زدہ تھا۔ ہتھیلی منہ کی طرف بڑھتی اور زبان کی نوک سے چھوتے ہی پسپا ہو جاتی۔ موت کا معمار خاموشی کی اینٹیں منہ کے آگے چنتا مگر زبان کی گرمی انہیں پگھلا دیتی۔ اس کی زبان آزاد رہی۔۔۔ اوپر سمندر پر شاید ایک پرانی کشتی تھی جس کے ماہی گیر اپنے مشقتی ہاتھوں، چنڈیوں سے بھری ہتھیلیوں میں زنگ آلود ٹوٹے ہوئے برچھے بھینچے اس آکٹوپس کے سطح پر آنے کے منتظر تھے۔ مگر آکٹوپس تو کبھی سطح پر نہیں آتا، وہ اپنی تاریک سلطنت میں ہی رہتا ہے۔ جب تک وہ کشتی گہرائی میں ڈوب کر اس تک نہیں پہنچتی وہ محفوظ ہے اور بدنوں کو گرفت میں لیتا رہتا ہے۔ سرسراتے ہوئے بے چین فیتے، ہزاروں زبانیں بدن پر پلستر کی صورت بچھتی گئیں۔
ساتویں قدم نے اس کے پاؤں پکڑے، وہ لڑکھڑایا اور رہوڈز کے مجسمے کی طرح اکڑوں حالت میں منہ کے بل گرنے لگا۔۔۔ تھکاوٹ اور پسینے سے بھیگتے بدن کی انگوری بیل کیکر کے کانٹوں پر لپٹنے لگی۔ لوں لوں میں کانٹوں نے جال بچھایا۔ تن کی لاکھوں آنکھوں میں سلائیاں کھبنے لگیں۔ کانٹوں کے آکٹوپس میں سے نکلنے کے لیے اس نے ہاتھ اور ٹانگیں پھیلا دیں۔۔۔ کھلی ہتھیلیوں میں میخیں ٹھونکی گئیں، لرزتے تلووں میں کانٹے داخل ہوگئے، صرف چہرہ کانٹوں کی سرحد کے پار تھا۔ گردن میں سولوں کی سرنجیں اتریں اور اس نے منہ کھول کر زبان باہر نکال دی۔ بدن پرسوئیوں کی فصل بونے کے باوجود کانٹے زبان کی نوک سے خوفزدہ رہے۔ اسے چھوتے ہی گھاس کے سبز تنکے کی طرح نرم ہوکر پسپا ہو جاتے۔ موت کا معمار خاموشی کی اینٹیں منہ کے آگے چنتا مگر زبان کی گرمی انہیں پگھلا دیتی، اس کی زبان آزاد رہی۔۔۔ بدن کے لوں لوں سے خون رس رہا تھا۔ خاردار تار کے گولے نے اسے پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ وہ جالےمیں لٹکتی مردہ مکھی کی طرح بے حس پڑا رہا مگر اس کی رگیں، اس کے خلیے سوال کرتے رہے۔۔۔ یہ آج صبح اندھیرے میں راستوں پر خاردار تار کے گولے کس نے بچھا دیے ہیں؟
یہ اس روز کی صبح تھی جب ذی ہوشوں کو خاکی کفن پہنائے گئے۔
دیر قاسم کے تمام مرد کھیتوں میں کام کرنے کے لیے جا چکے تھے جب فوجی گاؤں میں داخل ہوئے اور لاؤڈسپیکروں پر اعلان کیا کہ اب جو نفس کھلی فضا میں آئے گا اس کا سانس بند کر دیا جائے گا۔ خاردار تار کے پیچھے کواڑوں اور کھڑکیوں پر نفرت کی سانسیں لیتے ہوئے بچوں اور عورتوں نے سنا اور بے بسی کا تھوک نگلا۔ دیر قاسم کے مرد ان کھیتوں میں جھکے ہوئے تھے، جو بستی سے پرے نیم صحرائی ٹکڑے کے اختتام پر سبز ہو رہے تھے اور لاؤڈسپیکروں کی آواز کے دائرے سے دور تھے۔ بچی کے بال سنہری تھے اور اس کا باپ بھی کھیتوں میں جھکا ہوا تھا۔ اس نے اعلان سنا اور اپنے آپ کو پچھلے صحنوں اور باغیچوں میں پوشیدہ کرتی ہوئی اسے خبر کرنے کے لیے گاؤں سے باہر نکل گئی۔ شام ہوئی۔ دیر قاسم کے تھکے ہوئے تواناجسم اپنی مٹی کی چاہت میں گاؤں کو لوٹنے لگے۔ پہلے گھر کی پہلی اینٹ کو پار کرتے ہی جلتا لوہا ان کے سینوں کی زینت بنا اور وہ سب خاردار تار کے آکٹوپس میں جکڑے گئے۔۔۔ انہوں نے کرفیو کی خلاف ورزی کی تھی، اعلان ہوچکا تھا۔۔۔ چار ماہ بعد ایک بچی کھیت میں سوئی ہوئی ملی، اس کے ڈھانچے پر ماس کی دھجیاں تھیں اور اس کے سنہری بال دھرتی پر بکھرے ہوئے تھے اور ان میں سے گندم کی سنہری بالیاں پھوٹ رہی تھیں۔
اب اسے اپنا ہر قدم اکھاڑنا پڑ رہا تھا۔ جیسے وہ کیچڑ میں بھاگ رہا ہو۔ سپورٹس شوز میں پیک شدہ پاؤں وزنی ہو رہے تھے۔ بدن آگے نکلتا مگر پاؤں گھسٹتے پیچھے رہ جاتے۔۔۔ صرف چند قدم اور۔۔۔ شاباش صرف چند قدم۔۔۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ خاردار تار کے زخموں میں سے خون کا ایک قطرہ بھی نہ نکلا تھا۔ اس نے کل صبح واپس جاکر غسل خانے میں اپنے سارے جسم کو ایک کوڑھی کی طرح ٹٹول ٹٹول کر دیکھا تھا، خون نہ تھا، چبھن کے ہزاروں نقطے ابدیت تھے۔ مگر ان کے نشان نہ تھے صرف احساس کی نوکوں کی فصل تھی۔۔۔ البتہ آج وہ بستر سے تب برآمد ہوا جب سیاہی دور ہو چکی تھی، آج وہ اندھیرے میں نہیں دوڑنا چاہتا تھا، اپنا راستہ دیکھ کر طے کرنا چاہتا تھا۔۔۔ صرف چند قدم اور۔۔۔ اس کے کانوں میں فوارے کا مدھم بہاؤ اترا اور پھر کلب کی عمارت کا پیلا اہرام نمودار ہوا۔ اس نے آنکھیں پاؤں پر رکھ دیں جو ایک بوڑھے خچر کی طرح بھاری ہو رہے تھے۔
آنکھیں اٹھائیں تو راستے کو کانٹوں کی فصل نے روک لیا۔ باربڈ وائر سڑک کے آرپار بچھی ہوئی تھی۔۔۔ اس نے اپنے پیچھے آنے والوں کو دیکھا جو خاردار تار کو حائل دیکھ کر ٹھٹکتے، نامردی سے سر ہلاتے اور پھر چپکے سے راستہ بدل لیتے۔ کسی نے تار کے ہونے اور نہ ہونے پر دماغ کو بوجھل نہ کیا، اعتراض نہ کیا بس لاپروائی سے راستہ بدل لیا۔ کیا یہ خاردار تار واقعی سڑک کے آرپار بچھی ہے یا میرا واہمہ ہے۔ صرف مجھے ہی دکھائی دے رہی ہے؟ دوسری آنکھوں سے سوا میری آنکھوں کے لیے۔ وہ احتیاط سے اس کے قریب بیٹھ گیا اور آہنی ببول پر بے یقینی کا ہاتھ رکھا۔۔۔ اس کے پورے وجود کے زخم، لاکھوں پوروں کے زخم بلبلانے لگے۔۔۔ اس نے ہاتھ کھینچ لیا۔ کانٹوں کی نوکوں پر سرخ نقطے تھے جیسے ناگ پھنی پر نامعلوم پھول ہوں۔ اس نے ہتھیلیوں کے آئینے سامنے کیے، ان پر خون نہ تھا، بےنشان تھیں۔ تلوے چھوئے تو بھی انگلیاں سادہ ہی رہیں، رنگی نہ گئیں۔
چبھن کے لاکھوں بلبلے پھوٹ پھوٹ کر بہتے رہے مگر بے نشان۔۔۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ لوگ دامن بچا کر جا رہے تھے دوسرے راستوں پر، مگر وہ اسی راستے پر چلنا چاہتا تھا جس پر وہ آج تک چلتا آیا تھا کیونکہ وہ راستہ اس کا اپنا متعین کردہ تھا، کسی کو یہ حق نہ تھا کہ اس کی مرضی کے بغیر اسے بدل دے۔ اس نے باربڈوائر کو پار کرنے کے لیے پاؤں اٹھایا۔۔۔ ایک دھماکہ ہوا اور باغ کے پرندے درختوں سے رخصت ہوگئے۔۔۔ اس نے جلدی سے اپنا جسم ٹٹولا، نمی صرف پسینے کی تھی، تھکاوٹوں کے پسینے کی۔ اس نے پھر پاؤں اٹھایا، ایک اور دھماکہ ہوا۔۔۔ وہ پیچھے ہٹ گیا۔۔۔ تاریکی میں بچھائی جانے والی تار صرف تاریکی میں ہی عبور کی جا سکتی ہے، آج نہیں تو کل۔۔۔
سڑک کے پہلو میں پھولوں کی کیاریاں تھیں، وہ نیچے اترا، اپنے چار چفیرے ایک حفاظتی نظر پھیلائی اور ایک پھول کے ڈنٹھل کو چٹکی میں دبا لیا۔۔۔ تنگ مکانوں کی غربتی چھتوں پر بارشوں میں صرف گھاس کے تنکے اگتے ہیں۔۔۔ ان شکستہ فرشوں اور اکھڑتے ہوئے پلستروں والے کمروں میں ایک پھول بدہیئت عورت کی گود میں ایک رنگین بچہ ہوتا ہے۔ وہ ہر روز باغ میں سے ایک پھول کو جو رنگین بچہ ہے، اپنی بدہیئت عورت کے پاس لے جاتا جو اس کا کمرہ ہے۔۔۔ اس نے چار چفیرے ایک حفاظتی نظر پھیلائی اور ایک پھول کے ڈنٹھل کو چٹکی میں دبا لیا۔۔۔ پنکھڑیاں دھوپ میں کھڑے موم کے ہیلی کاپٹر کے پردوں کی طرح ڈوڈسے سے پگھل کر علیحدہ ہوئیں اور پودے کی جڑ کے چاروں طرف براجمان ہوگئیں، پھول نے اپنی بناوٹ زمین پر سجادی۔۔۔ اس نے ایک اور تنے کو چٹکی میں لیا۔ پنکھڑیاں ٹوٹ کر گر گئیں۔
ایک اور ڈنٹھل کو پکڑ کر اس نے جلدی سے پھول توڑنے کی کوشش کی۔۔۔ اس پکھیرو کے پنکو بھی فوراً جھڑ گئے۔۔۔ شاید کیاری میں مرجھاہٹ مرنے کو آگئی ہے۔۔۔ دوسری کیاری میں پھول توانائی سے تنے تھے، اس نے ڈنٹھل ہاتھ میں لیا اور یہ پرندہ بھی اپنے پر چھوڑ گیا۔۔۔ اس نے ہراساں ہو کر اپنی انگلیوں کو دیکھا جن کا لمس مرجھاہٹ بن گیا تھا۔۔۔ اس کے ماتھے پر سراسیمگی کے پسینے تیرے۔۔۔ لولے، لنگڑے، بانجھ، اندھے، نامرد وسوسے اس کے بدن پر بیساکھیوں سے گھسٹنے لگے۔ شکاری کتوں کی بو اس کے نتھنوں میں اتری اور وہ آنکھوں سے خوف اگلتا تیزی سے گھر لوٹ آیا
بدہیئت عورت جو کمرہ تھی، اس کی گود میں ایک رنگین بچہ تھا، جو پھول تھا۔ اچار کے خالی ڈبے میں تنہا تصویر بنا پھول۔۔۔
اس نے اپنی دونوں انگلیاں آنکھوں کے سامنے حاضر کیں، انہیں جانچا، کیا ان میں آکٹوپس نے مرجھاہٹ بھر دی ہے؟ وہ دبے پاؤں آگے بڑھا۔۔۔ چٹکی سے ڈنٹھل کو چھوا۔۔۔ کچھ بھی نہ ہوا، پنکھڑیاں قائم رہیں۔ اس نے ڈنٹھل چھوڑ کر اپنی انگلیوں کو غور سے دیکھا اور پھر دھیرے سے ڈنٹھل کو چٹکی میں دبایا۔۔۔ پھول موجود رہا۔ اس نے اطمینان کا ایک سیلاب اپنے اندر کھینچا۔۔۔ سب واہمے۔۔۔ آکٹوپس ایک پیچیدہ واہمہ۔۔۔ مرجھاہٹ ایک اور واہمہ۔۔۔ وسوسے اپنی اپنی بیساکھیاں چھوڑ کر کنج بدن سے فرار ہوگئے۔۔۔ سب واہمے۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔
’’فلا ورمیکنگ کلاس میں جانے کا کچھ تو فائدہ ہوا۔ آپ روزانہ چوری چھپے اس کمرے کے لیے ایک پھول توڑ لاتے تھے، میں نے آج کاغذ کا بنا کر سجا دیا۔۔۔ اصلی لگتا ہے ناں؟‘‘
لولے، لنگڑے، بانجھ، اندھے، نامرد، وسوسے ہنہناتے ہوئے آئے اور اپنی بیساکھیاں سنبھال کر بدن میں چلنے لگے۔ لوں لوں سے اذیتیں پھوٹیں، ناگ پھنی کی فصل جسم سے پھوٹنے لگی، درد کے بلبلے پھوٹے اور پھٹتے گئے۔ ٹیسوں کی ایک باڑ سینہ چھید گئی، نوکوں کا لوہا چھاتی میں پناہ گزیں ہوا۔ یہ تن اِک ٹیس، اس کے ہر لوں میں لاکھوں ٹیسیں۔۔۔ وہ کراہتا ہوا بستر پر لیٹ گیا۔ اور اس کے تلووں، گھٹنوں، گردن اور کھلی ہتھیلیوں میں سے میخوں کی گولائی کا خون آہستہ آہستہ رسنے لگا۔