نمود شام جو تیرہ شبی بھی دیتی ہے

نمود شام جو تیرہ شبی بھی دیتی ہے
باختتام سفر روشنی بھی دیتی ہے


یہ بات اہل خرد کی سمجھ میں آ نہ سکی
جنوں کی بے خبری آگہی بھی دیتی ہے


بہت ہی خوب ہے یارو خلوص دل داراں
عجیب عزم مگر بیکسی بھی دیتی ہے


سکوت ساز میں آہنگ درد دل مضمر
صدائے کرب کبھی خامشی بھی دیتی ہے


نشان جادۂ منزل بہ رہ روان وفا
شب سیاہ میں خود تیرگی بھی دیتی ہے


وہ ایک ساعد سیمیں وہ ایک ماہ جبیں
سکون قلب کو آشفتگی بھی دیتی ہے


یہ کہہ رہی تھی نسیم سحر کنار فرات
زمین قتل وفا زندگی بھی دیتی ہے