سیرت النبی سے ایک خوب صورت واقعہ
رسول پاکﷺ کے ایک پیارے ساتھی حضرت طارق بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں (اسلام قبول کرنے سے پہلے)اپنے قبیلے (بنو محارب) کے چند لوگوں کے ساتھ ربذہ سے مدینے کی طرف روانہ ہوا۔ہم وہاں سے کھجوریں خرید کر لانا چاہتے تھے۔جب ہم مدینہ کی آبادی کے قریب پہنچے تو ہمارے قافلے نے شہر کے باہر پڑاؤ ڈال دیاتاکہ سفر کے کپڑے اتار کر دوسرے کپڑے بدل لیں۔اتنے میں شہر سے ایک صاحب آئے جنہوں نے دو پرانی چادروں کا لباس پہن رکھا تھا۔انہوں نے سلام کے بعد ہم سے پوچھا:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جانے کا ارادہ ہے؟‘‘
ہم نے کہا:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ ہم ربذہ سے یہیں (مدینہ) تک آئے ہیں تاکہ کچھ کھجوریں خرید سکیں‘‘
ہمارے پاس ایک سرخ اونٹ تھا۔ان صاحب نے پوچھا:
’’ یہ اونٹ بیچتے ہو؟‘‘
ہم نے کہا:۔۔۔۔۔۔۔ ہاں، اس قدر کھجوروں کے بدلے میں دے دیں گے۔
ان صاحب نے ہم سے کو ئی مول تول نہیں کیا اور کہا:
’’ آپ جو قیمت بتا رہے ہیں، مجھے منظور ہے۔‘‘
پھر انہوں نے اونٹ کی مہار پکڑی اور شہر کو چلے گئے۔ان کے جانے کے بعد ہم نے سوچا کہ ہم تو اس شخص کو جانتے تک نہیں اور وہ ہمارا قیمتی اونٹ قیمت دیے بغیر لے گیا۔کیا معلوم اب اونٹ کی قیمت وصول ہوتی ہے یا نہیں۔
قافلے میں ہمارے قبیلے کے سردار کی پردہ نشین بیوی بھی شامل تھی(وہ ایک دانا عورت تھی) اس نے پردے کے پیچھے سے ہمیں اس قدر پریشان دیکھا تو بولی:۔۔۔۔۔۔
’’ تم لوگ پریشان کیوں ہوتے ہو۔میں نے اس شخص کا چہرہ دیکھا تھا جو چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا۔ایسے نورانی مکھڑے والا خریدار کبھی دھوکا نہیں دے سکتا۔اگر وہ قیمت نہ دے گا تو میں دے دوں گی۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی باتیں ہورہی تھیں کہ شہر سے ایک شخص آیا اور کہا:
’’ مجھے رسول اللہ ﷺ نے بھیجا ہے اور تمہارے سرخ اونٹ کی قیمت کی کھجوریں بھیجی ہیں اور تمہاری دعوت کے لئے الگ کھجوریں ہیں۔کھاؤ پیو اور قیمت کی کھجوروں کو ناپ کر پورا کرلو۔‘‘
جب ہم کھا پی کر سیر ہوگئے تو شہر میں داخل ہوئے۔دیکھا تو وہی صاحب نورانی مکھڑے والے مسجد کے منبر پر کھڑے وعظ کررہے ہیں۔ہم نے الفاظ سنے:۔۔۔۔۔۔۔۔
’’لوگو ! خیرات دیا کرو۔خیرات دینے میں تمہاری بہتری ہے۔اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔ماں کو ،باپ کو،بہن کو،بھائی کو،پھر قریبی کو اور دوسرے قریبی کو دو۔‘‘
اب ہم سمجھے کہ یہ رسول اللہ ﷺ ہیں۔پس ہم سب نے آپﷺ کے دست مبارک پر اسلام قبول کر لیا۔