2022 کا امن نوبل انعام کیا کوئی بھارت سے حاصل کرے گا: کیا یہ ایک سیاسی انعام ہوتا ہے؟
یہ اکتوبر کا مہینہ ہے۔ یعنی ہر سال کی طرح نوبل انعام ملنے کا موسم ہے۔ آج چھے اکتوبر کو جب یہ تحریر لکھی جا رہی ہے تو تین شعبہ جات میں 2022 کے نوبل انعام مل چکے، جن میں فزکس، طب اور کیمسٹری شامل ہیں۔ باقی تین ہی شعبہ جات رہ گئے۔ ان میں امن، اقتصادیات اور ادب کے شعبہ جات ہیں۔ ادب میں نوبل پرائز آج چھے اکتوبر کو دے دیا جائے گا، جبکہ جمعے کو امن اور پھر پیر کو اقتصادیات میں۔
اس وقت اندازے گرم ہیں کہ آخر کون ہوگا وہ جو ماندہ تین شعبہ جات میں نوبل انعام پائے گا؟ لیکن سب سے بڑھ کر امن کے نوبل انعام پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ کیونکہ اکثر یہ سب سے بڑھ کر متنازعہ ہوتا ہے۔ یہ وہ شعبہ ہے جس میں اسرائیل کے حکام تک کو نوبل انعام ملا ہے۔ شاید فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے پر۔ ان کے نزدیک ہو سکتا ہے اسی طرح امن قائم ہو۔ ہو سکتا ہے بھئی ہمیں کیا پتہ۔
بھارت سے کون یہ انعام جیت سکتا ہے؟
ہماری تو رگ پاکستانیت امن انعام کے لیے اس لیے پھڑکی ہےکہ اس وقت بھارت سے کچھ نام اس انعام کے لیے زبان زد عام ہوئے ہیں۔ بھارتی میڈیا خوب ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے۔ مزے کی بات ہے ان میں صحافی محمد زبیر بھی شامل ہیں۔ وہی محمد زبیر جنہیں کچھ دیر پہلے بھارتی حکومت نے گرفتار کیا تھا۔ یہ وہی صحافی ہیں جنہوں نے نوپور شرما کی گستاخی کی ویڈیو ٹوئٹر پر لگائی تھی۔ ان کے علاوہ بھی دو اور نام ہیں۔ اس وقت زبان زد عام اس لیے ہیں، کہ ناروے کے امن پر تحقیقی ادارے پیس ریسرچ انسیٹیوٹ اوسلو (Peace Research Institute Oslo)کے ڈائریکٹر ہینرک آرڈل نے کچھ نام شارٹ لسٹ کیے ہیں۔ ان میں بھارت سے تین نام ہیں۔ جس طرح یہ نام دیے گئے ہین، پانچ نام لسٹ میں اہم ترین لگتے ہیں۔ ان پانچ ناموں میں بھارت سے ہارش میندل اور ان کی 2017 سے جاری کاروان محبت تحریک شامل ہیں۔ آپ اس فہرست کو تفصیل سے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں۔
نوبل امن انعام کی فہرست دیکھنے کے لیے یہاں کلک کیجیےہارش میندل کے علاوہ آلٹ نیوز کے بانی محمد زبیر اور اور پراتک سنہا بھی فہرست میں شارٹ لسٹ کیے گئے ہیں۔
تحقیقی ادارے PRIO نے ہارش میندل، محمد زبیر اور پراتیب سنہا کو کیوں شارٹ لسٹ کیا ؟
یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ PRIO کوئی ایسا ادارہ نہیں جو نوبل انعام کا اعلان کرے۔ اس کا اعلان ناروے کی نوبل کمیٹی کرتی ہے۔ PRIO کی ویب سائٹ کے مطابق اس کا نوبل کمیٹی سے کوئی باضابطہ تعلق نہیں۔ ان کے ڈائریکٹر صرف ایک روایت نبھاتے ہوئے اس شارٹ لسٹ کا اعلان کرتے ہیں جس کی بنیاد ان کی اپنی آزادانہ تحقیق ہوتی ہے۔
ہارش میندل کو بھارت میں بڑھتی انتہا پسندی اور مذہبی اجارہ داری کے خلاف کام کرنے پر نوبل امن انعام کا اہم امید وار قرار دیا جا رہا ہے۔ اسی امر کے لیے ان کی 2017 سے جاری تحریک کاروان محبت کو بھی سراہا گیا ہے۔ باقی محمد زبیر اور پراتیب سنہا کو آلٹ نیوز کے ذریعے انتہا پسند ہندووں کے پھیلائے پراپیگینڈے اور جھوٹ کا مقابلہ کرنے پر شارٹ لسٹ کیا گیا ہے۔
کیا نوبل امن انعام ایک سیاسی انعام ہے؟
نوبل امن انعام کی تاریخ کے باعث اسے سیاسی اور متنازعہ سمجھا جاتا ہے۔ کیسی بات ہے کہ ایک بار اس انعام کا امیدوار ہٹلر بن گیا تھا۔ اسی طرح کئی بار اسرائیلی حکام بھی یہ انعام پا چکے ہیں۔ 2014 میں ملالہ یوسف زئی کو بھی یہی انعام ملا تھا۔
شارٹ لسٹ کیے گئے ناموں کو بھی دیکھیں تو اس انعام کے سیاسی ہونے کی بو آتی ہے۔ PRIO نے جن ناموں کو شارٹ لسٹ کیا ہے، ان میں صدر پیوٹن کے روسی مخالف الیگزینڈر نویلنی، بیلاروس جہاں صدر پیوٹن کے حلیف صدر الیگزینڈر لوکاشینکو براجمان ہیں، کے بھی قائد حزب اختلاف اسویتلایاسبنسکایا، چین میں اوغور مسلمانوں کے قید سکالر عالم توتی وغیرہ شامل ہیں۔ ہو سکتا ہے دنیا میں تمام امن کی کاوشیں صرف وہی کرتے ہوں جنہیں یورپی اور امریکی ممالک سپورٹ کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے بھئی۔