،نشان حیدر سیریز: دو جنگوں کا نڈر سالار، میجر شبیر شریف ،دو بڑے فوجی اعزازکے حامل
نشانِ حیدر پاکستان کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز ہے۔ اب تک 9 فوجی جوانوں کو یہ اعزاز دیا جاچکا ہے۔ اس سیریز میں ہم ان تمام نشان حیدر سرفروشوں کا تذکرہ کیا جائے گا۔ہم آج میجر شبیر شریف کا ذکر کریں گے۔
میجر شبیر شریف کا فوج کا سفر کب شروع ہوا؟
میجر شبیر شریف واحد فوجی جوان ہیں جنھیں دو بڑے فوجی اعزاز نشانِ حیدر اور ستارہ جرات عطا کیے گئے۔ جرات اور بہادری کا استعارہ بننے والے میجر شبیر شریف 28 اپریل 1943 کو ضلع گجرات کےگاؤں کونجاہ میں پیدا ہو۔ آپ کے والد رانا محمد شریف بھی پاک افواج سے ہی ریٹائر ڈہوئے تھے۔ بچپن سے ہی فوجی تربیت نے سپاہ گری آپ کے خون میں بسا دی تھی۔ اپنی ابتدائی تعلیم شریف نے سینٹ اینتھونی ہائی اسکول سے حاصل کی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے اسکول کے زمانے سے ہی غیر معمولی ذہانت کے مالک تھے۔ نہ صرف ذہانت آپ میں کوٹ کوٹ کے بھری تھی بلکہ جسمانی مضبوطی میں بھی کوئی آپ کا ثانی نہیں تھا۔ انیس سو اکسٹھ میں گوورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم کے دوران آپ کی شمولیت پاک آرمی میں ہو گئی جہاں آپ نے پی ایم اے لانگ کورس پاس کیا۔ کورس کے دوران آپ اپنے بیج کے سب سے بہترین سپاہی قرار پائے اور آپ کو سوارڈ آف اونر ملی۔
میجر شبیر شریف کا کمیشن کب ملا؟
شبیر شریف کو آرمی میں کمیشن انیس سو چونسٹھ میں ملا اور آپ کی بھرتی چھٹی فرنٹیر کور رجمنٹ میں ہوئی۔ انیس سو پینسٹھ میں آپ کی ترقی لیفٹننٹ کے رینک پر ہوگئی جب کہ انیس سو چھیاسٹھ میں آپکو کیپٹن کے رینک پر ترقی دے دی گئی۔انیس سو پینسٹھ کی جنگ چھڑی تو چھٹی فرنٹیر کور کو دشمن کے جانب سے سخت مزحمت کا سامنا ہوا۔ اس مزاحمت کی وجہ سے فرنٹیر کور کو خاصا جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا تھا۔ اس دوران بریگیڈ کمانڈر نے فرنٹیر کور میں سے چند سپاہیوں کو شبیر شریف کی کمان میں دشمن کی جاسوسی کیلیے بھیجا تاکہ وہ دشمن کی کمزوری کا پتہ چلا سکیں اور دشمن کو پیچھے دھکیلا جا سکے۔ جب شبیر اپنے سپاہیوں کے ہمراہ جاسوسی کو گئے تو انہوں نے دیکھا کہ کہ دشمن چوکنا نہیں بلکہ آرام کر رہا ہے۔ انہوں نے موقع بھانپتے ہوئے دشمن پر حملہ کر دیا اور اسے سپر ڈال دینے اور بھاگ نکلنے میں سے کوئی ایک راہ اختیار کرنے کا موقع دیا۔
دو جنگوں حصہ لینے کا اعزاز
انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں اس درجہ جرات مندانہ کارنامے دکھانے پر شبیر شریف کو ستارہ جرات سے نوازا گیا۔ انیس سو اکہتر کی جنگ چھڑی تو میجر شبیر شریف کو سبیونا بند پر قبضہ کرنے کا حکم ملا تاکہ ہیڈ سلیمانکی کو دشمن کے حملے سے محفوظ بنایا جاسکے۔ میجر شبیر شریف نے انتہائی قلیل وسائل سے نہ صرف اس قبضے کو ممکن بنایا بلکہ دشمن پر اپنی دھاک بھی بٹھا دی۔ اس جنگ کے دوران میجر شبیر شریف اور بھارت کے کمانڈر نرائن سنگھ کے مقابلے کے قصے بھی زبان زد عام ہیں جن میں شبیر شریف نے دشمن کے کمانڈر کو چاروں شانے چت کر کے جہنم واصل کیا۔ چار اور پانچ دسمبر کو دشمن نے شبیر شریف سے خوف زدہ ہوتے ہوئے بھاری توپ خانے اور ٹینکوں سے حملہ کیا۔ میجر شبیر شریف نے اپنی سرفروشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کو ناکوں چنے چبوائے لیکن پانچ دسمبر کے دن دشمن کے ایک ٹینک سے گولہ داغا گیا جو کہ شبیر شریف کا سینہ چیرتا ہوا نکل گیا۔ ارض وطن کے اس جانباز نے اس گولے کے آگے سینہ سپر ہوتے ہوئے جان کی بازی ہار دی اور یوں جرات اور بہادری کا استعارہ بننے والا وطن کا محافظ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران قربان ہو گیا۔
ایک خاندان میں نشانِ حیدر پانے والے دوسرے فوجی
حکومتِ پاکستان نے دشمن کے آگے سیسہ پلائی دیوار بننے والے اس جوان کو نشان حیدر سے نوازا اور یوں شبیر شریف کے خاندان کو دوسرا نشان حیدر مل گیا۔ پہلا نشانِ حیدر راجہ عزیز بھٹی شہید کو عطا کیا گیا جو ان کے رشتے میں ماموں لگتے تھے۔ یاد رہے کہ ان کے چھوٹے بھائی جنرل راحیل شریف 2013 تا 2016 تک چیف آف آرمی سٹاف رہے ہیں۔