نیند اجڑی تو نگاہوں میں مناظر کیا ہیں

نیند اجڑی تو نگاہوں میں مناظر کیا ہیں
ہم کہ بیتاب کسی خواب کی خاطر کیا ہیں


برگ معصوم سے کرتے ہیں خزاں کی باتیں
موسم سبز کے لمحات بھی شاطر کیا ہیں


جیسے اجڑی ہوئی بستی میں عبادت کا سماں
سوکھتی شاخ پہ بیٹھے ہوئے طائر کیا ہیں


کیوں بہر لمحہ بکھرتا ہے یقیں کا پیکر
طنز و تشکیک کے اسباب بالآخر کیا ہیں


راہ پرخار پہ یہ چلتے بگولے کی طرح
روز محشر کے پیامی ہیں مسافر کیا ہیں


دردمندانہ صداقت کے پیمبر شہپرؔ
درد کی بات سمجھنے سے بھی قاصر کیا ہیں