نگہ کی شعلہ فزائی کو کم ہے دید اس کی
نگہ کی شعلہ فزائی کو کم ہے دید اس کی
چراغ چاہتا ہے لو ذرا مزید اس کی
درون دل کسی زخم دہن کشا کی طرح
بہت دنوں سے طلب ہے بڑی شدید اس کی
ملا تو ہے کوئی بنت عنب سا لب لیکن
ہمارے شہر میں ممنوع ہے کشید اس کی
اب اس کا حق ہے بہشت بدن پہ جا اٹھنا
نگہ ہوئی ہے رہ دید پر شہید اس کی
میں سر بہ خاک ہوں تاکہ وہ سرخ رو ہو جائے
بپا جو ماتم دل ہو تو پھر ہو عید اس کی