نگاہوں میں یہ کیا فرما گئی ہو
نگاہوں میں یہ کیا فرما گئی ہو
مری سانسوں کے تار الجھا گئی ہو
در و دیوار میں ہے اجنبیت
میں خود بھی کھو گیا تم کیا گئی ہو
پریشاں ہو گئے تعبیر سے خواب
کہ جیسے کچھ بدل کر آ گئی ہو
تمنا انتظار دوست کے بعد
کلی جیسے کوئی مرجھا گئی ہو
یہ آنسو یہ پشیمانی کا اظہار
مجھے اک بار پھر بہکا گئی ہو
ضیاؔ وہ زندگی کیا زندگی ہے
جسے خود موت بھی ٹھکرا گئی ہو