نگاہوں کو زباں کرنا خموشی کو بیاں کرنا

نگاہوں کو زباں کرنا خموشی کو بیاں کرنا
عیاں کرنا بھی راز دل کبھی تو یوں عیاں کرنا


ہوائے سود میں رہنا نہ پروائے زیاں کرنا
حقیقت میں ہے سامان نشاط جاوداں کرنا


کشیدہ ہو گئے تم جب کشش ثابت ہوئی دل کی
سمجھ کر چاہئے تھا جذب دل کا امتحاں کرنا


وفا کا ذکر خود کرنا خلاف رسم الفت ہے
سبک ہو کر نہ پیش دوست بار غم گراں کرنا


بہ ایں بے دست و پائی مل بھی جائے گا تو کیا ہوگا
عبث ہے فکر منزل میں تلاش کارواں کرنا


مجھے تیری رضا مرغوب تھی ورنہ نہ تھا ممکن
جفائے دوستاں سہنا ثنائے دشمناں کرنا


انہیں ضد ہے کہ ہیں آزردہ مجھ سے بے سبب ورنہ
نہیں ہے جرم کچھ ذکر جفائے آسماں کرنا


سر منبر ہے واعظ معترض کیوں بت پرستی پر
یہاں لازم نہیں مرد خدا ذکر بتاں کرنا


کسی کا راز اتنا قیمتی تھا قلب بیخودؔ میں
خموشی کو ضروری ہو گیا قفل دہاں کرنا